خزائن القرآن |
|
اَلْمُرَادُ بِالرَّحْمَۃِ الْاِنْعَامُ الْمَخْصُوْصُ وَ ھُوَ التَّوْفِیْقُ لِلثُّبَاتِ عَلَی الْحَقِّ عدمِ ازاغت کے لیے جس رحمت کو طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے اس رحمت سے مراد رحمتِ خاصہ ہے اور وہ توفیق ہے حق پر قائم رہنے کی اور لفظ ہبہ سے مانگنے میں یہ تعلیم ہے کہ: اِنَّ ذٰلِکَ مِنْہُ تَفَضُّلٌ مَّحْضٌ بِۢدُوْنِ شَائِبَۃِ وُجُوْبٍ عَلَیْہِ تَعَالٰی شَانُہٗ؎ استقامت کی یہ نعمت فضلِ محض ہے، عطائے حق ہے، ہبہ ہے۔ جس طرح ہبہ بغیر معاوضہ ہوتا ہے، محض ہبہ کرنے والے کی عنایت سے ہوتا ہے اسی طرح دین پر استقامت کی نعمت ہمارے کسی عمل کا بدلہ نہیں ہو سکتی محض حق تعالیٰ کے فضل و عنایت سے ملتی ہے اور اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ معرضِ تعلیل میں ہے یعنی لِاَنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ تو معنیٰ یہ ہوئے کہ ہم آپ سے اس رحمتِ خاصہ کو کیوں مانگتے ہیں؟ اس لیے کہ آپ بہت بخشش کرنے والے، بڑے عطا فرمانے والے ہیں۔اس دعا کا معمول دین پر استقامت اور حسنِ خاتمہ کا بہترین نسخہ ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ نے اپنی عنایات کو جو ہم پر واجب فرمایا تو اس کا نام وجوبِ تفضلی اور وجوبِ احسانی اس لیے ہے کہ استقامت اور ایمان پر موت اور جنّت کا ملنا اللہ تعالیٰ کے ہبہ پر موقوف ہے، ہم اپنے اعمال کے زور سے اس کو نہیں پاسکتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سکھایا کہ یوں کہو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا اے ہمارے پالنے والے! ہمارے دل کو ازاغت سے یعنی ٹیڑھا ہونے سے بچائیے کیوں کہ دل جب ٹیڑھا ہو گا تو جسم کے ہر عضو سے گناہ شروع ہو جائیں گے کیوں کہ دل بادشاہ ہے اور اعضاء اس کے تابع ہیں۔ یہاں عدمِ ازاغت سے مراد استقامت ہے کیوں کہ اَ لْاَشْیَاءُ تُعْرَفُ بِاَضْدَادِھَاکہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔دن کی پہچان رات سے ہوتی ہے اور رات کیپہچان دن سے ہوتی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ازاغت سے استقامت کی پہچان کرائی کیوں کہ استقامت کی ضد ازاغت ہے۔ لہٰذا جب دل ٹیڑھا نہیں ہو گا تو مستقیم رہے گا۔ معلوم ہوا کہ عدمِ ازاغت ہی استقامت ہے۔ لَا تُزِغْکے معنیٰ ہیں کہ ہمارے دل کو ٹیڑھا نہ ہونے دیجیے یعنی ہمیں استقامت عطا فرمائیے بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا بعد اس نعمت کے کہ آپ نے ہم کو ہدایت سے نوازا تو پھر اب دوبارہ گمراہی سے بچائیے وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اور ہمیں ایک خاص رحمت ہبہ کردیجیے مگر ہبہ میں اور رحمت میں فصل کیوں فرمایا؟ ہبہ کے بعد فوراً رحمت کا لفظ نازل نہیں فرمایا بلکہ موہوب، واہب اور ------------------------------