خزائن القرآن |
|
اگر کبھی بوجۂ بشریت کے اس کی وفاداری میں کوئی کمزوری بھی آئے گی اور اس سے کوئی خطا بھی ہو جائے گی تووہ پھر توبہ کر کے با وفا ہوجائے گا۔ توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہوتا۔ اور یہ بات دنیا کی ہر محبت کے مشاہدات میں بھی موجود ہے جیسے بچہ ماں کی چھاتی پر پاخانہ پھِر دیتا ہے تو کیا ماں اس کو دھو کر پھر پیار نہیں کرتی؟ اور کیا پھر وہ دوبارہ پاخانہ نہیں پھرتا؟ ماں کو یقین ہوتا ہے کہ یہ پھر پھِرے گا مگر وہ اپنی شفقت سے نہیں پھِرتی حالاں کہ یقین سے جانتی ہے کہ یہ ہگتا رہے گا مگر محبت کی وجہ سے عزم رکھتی ہے کہ میں دھوتی رہوں گی۔ تو کیا اللہ تعالیٰ کی محبت ماں کی محبت سےبھی کم ہے۔ ماؤں کو محبت کرنا تو انہوں نے ہی سکھایا ہے لہٰذا ہمیں حکم دے دیااِسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡتم اپنے رب سے بخشش مانگتے رہو۔ کیوں؟اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا؎ کیوں کہ تمہارا رب بہت بخشنے والا ہے، غَافِرْ نہیں ہے غَفَّارْ ہے کَثِیْرُ الْمَغْفِرَۃِ ہے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی ورنہ معافی کا حکم کیوں دیتے۔ اگر ہم معصوم ہوتے تو اِسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ نازل نہ ہوتا۔ چوں کہ صدورِ خطا کا معاملہ یقینی تھا اس لیے استغفار کا حکم نازل ہوا۔ لہٰذا ماضی کے گناہوں سے معافی مانگو اور آیندہ کے لیے توبہ اور عزمِ مصمّم کرو کہ آیندہ کبھی یہ گناہ نہ کروں گا۔ لاکھ با ر خطائیں ہو جائیں لیکن جو توبہ کرتا رہتا ہے یہ علامت ہے کہ یہ بندہ حال میں بھی محبوب ہے اور مستقبل میں بھی اللہ کا محبوب رہے گا۔ جو مستقبل میں بے وفائی کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ محبوب ہی نہیں بناتے لہٰذا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں جو مرتد ہوئے وہ پہلے ہی سے خدا کے مبغوض تھے اگرچہ حالتِ اسلام ظاہر کر رہے تھے لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ وہ مرتد ہو جائیں گے لہٰذا وہ اللہ کے دائرۂ محبوبیت میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے اس لیے خطاؤں سے مایوس نہ ہو۔ کوشش تو کرو، جان کی بازی لگا دو کہ کوئی خطا نہ ہو لیکن بر بنائے بشریت اگر کبھی پھسل جاؤ تو فوراً توبہ کر کے ان کے دامنِ رحمت اور دامنِ محبوبیت میں آجاؤ اور اگر شیطان ڈرائے کہ آیندہ پھر یہی خطا کرو گے تو کہہ دو کہ میں پھر توبہ کر لوں گا۔ ان کی چوکھٹ موجود ہے اور میرا سر موجود ہے، میری جھولی باقی ہے اور ان کا دستِ کرم باقی ہے۔ یہ میرا سر سلامت رہے جو ان کی چوکھٹ پر پڑا رہے اور میرا دستِ سوال سلامت رہے جس سے میری جھولی بھرتی رہے۔ کیا یہ الفاظ اور یہ زبان زمین کی زبان ہے، یہ آسمان سے عطا ہوتی ہے۔ میرا ایک شعر ہے ؎ میرے پینے کو دوستو سن لو آسمانوں سے مے اُترتی ہے ------------------------------