خزائن القرآن |
|
رضی اللہ عنہم ورضواعنہ، اللہ تعالیٰ صحابہ سے خوش ہو گیا اور صحابہ اللہ سے خوش ہو گئے۔ جب اللہ خوش ہو جائے اور معاف کر دے تو کسی خبیث کو اجازت اور اختیار نہیں کہ وہ اپنی عدالت میں جرح اور تنقید کے لیے ان کا تذکرہ کرے۔ سمجھ رہے ہیں آپ؟ جب اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے اور کہہ دے کہ ہم نے معاف کر دیا، ہم راضی ہیں تو تم کون ہو ان پر تنقید کرنے والے؟ یہ وہی شخص ہے جو اولیاء اللہ کے بارے میں کیڑے نکالتا ہے اور جب کیڑے نہیں ملتے تو کیڑے ڈالتا ہے۔ یہ ڈبل مجرم ہے۔ ۵)حسنہ کی پانچویں تفسیر ہے اَلْمَالُ الصّٰلِحُ رزقِ حلال۔ ۶)چھٹی تفسیرثَنَآءُ الْخَلْقِمخلوق میں اس کی تعریف ہو۔ آج کل جاہل صوفی گھبرا جاتا ہے کہ ہائے میری تعریف ہو رہی ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ میں تسبیح لیتا ہوں تو مجھے یہ خیال آتا ہے کہ لوگ مجھے کہیں نیک نہ سمجھنے لگیں تو میرے شیخ حضرت ابرار الحق صاحب نے فرمایا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو بدمعاش کہیں۔ ارے بھئی! اگر لوگ نیک کہتے ہیں تو شکر کرو بس تم اپنے کو نیک مت سمجھو۔ مخلوق میں اگر تعریف ہوتی ہے تو ہونے دو، اپنی نظر میں حقیر ہونا مطلوب ہے اور مخلوق میں عظمت اور جاہ اور عزت مطلوب ہے اس کی دعا سکھائی گئی ہے۔ مخلوق میں تعریف ہو تو یہ حسنہ کی تفسیر ہے، پس جب مخلوق تعریف کرے تو سن کر اللہ کا شکر کرے کہ اے اللہ! تو نے میرے عیبوں کو چھپا دیا اور بھلائیاں ظاہر کر دیں اور لوگوں کی نگاہوں میں میری تقریر یا تحریر کو اچھا دِکھا دیا۔ ایسے وقت میں شکر کرنے سے تکبر سے بچ جائے گا کیوں کہ تکبر سببِ بُعد ہے، اللہ سے دوری کا سبب ہے اور شکر سببِ قرب ہے، اللہ سے قرب کا سبب ہے اور سببِ قرب اور سببِ بُعد دونوں میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے ۔ پس جب تک تشکر کی کیفیت ہو گی کبھی تکبر پاس نہیں پھٹکے گا کیوں کہ تشکر کبھی سببِ بُعد نہیں ہوسکتا۔ تکبر اللہ کی رحمت سے دور کرتا ہے، متکبر کو اللہ کی طرف دھیان نہیں رہتا، اپنے اوپر نظر ہوتی ہے کہ یہ میرا کمال ہے اور تشکر میں اپنے کمالات کی نسبت کا غلبہ اللہ کی طرف ہوتا ہے۔ تو اللہ کا شکر ادا کرے کہ اے اللہ! یہ آپ کا کرم ہے کہ آپ نے مجھے یہ سلیقہ عطا فرمایا کہ آج مخلوق میں میری تعریف ہو رہی ہے، یہ آپ کی عطا اور آپ کا کرم ہے، میرا کمال نہیں۔ ۷)ساتویں تفسیر ہے اَلْعَافِیَۃُ وَالْکَفَافُیعنی عافیت اور غیر محتاجی اور عافیت کے معنی ہیں اَلسَّلَامَۃُ فِیْ الدِّیْنِ مِنَ الْفِتْنَۃِ وَالسَّلَامَۃُ فِی الْبَدَنِ مِنْ سَیِّیءِ الْاَسْقَامِ وَالْمِحْنَۃِ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ عافیت کے معنی ہیں کہ دین فتنہ سے محفوظ ہواور بدن برے امراض اور محنتِ شاقہ سے محفوظ ہو اور