خزائن القرآن |
ہے؟ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسمِ ذات کا ثبوت اسی آیت سے ہے۔ صوفیاء کا ذکر ’’اللہ،اللہ‘‘ جو ہے اسی آیت سے ثابت ہے۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بوادر النوادر میں لکھا ہے کہ صحابہ کے زمانے میں ذکر کا ثبوت موجود ہے، جب وہ قرآن پاک یاد کرتے تھے تو ایک ایک لفظ کا رسوخ و تکرار کرتے تھے۔ تکرارِ لفظ سے ذکر راسخ ہو جاتا تھا۔ وہ زمانہ تو عہدِ نبوت کا تھا۔ نبوت کی ایک نظر سے وہ صاحبِ نسبت ہوجاتے تھے اور نسبت بھی ایسی کہ قیامت تک آنے والا بڑے سے بڑا ولی ایک ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا۔ اب زمانہ عہدِ نبوت سے بُعد کا آگیا لہٰذا صوفیاء نے یہ طریقہ نکالا کہ جیسے صحابہ ایک ایک لفظ کی تکرار کر کے قرآن پاک یاد کرتے تھے مثلاً اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ،اسی طرح ہم بار بار اللہ اللہ کہتے ہیں تاکہ اللہ دل میں یاد ہوجائے، یاد تو ہے لیکن دماغ میں، دل میں تب اُترے گا جب بار بار ہم اللہ کہیں گے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ میں رب کیوں فرمایا جب کہ وَاذْکُرِ اسْمَ اللہِ بھی ہو سکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ پالنے والے کی محبت ہوتی ہے، پالنے والے کو آدمی محبت سے یاد کرتا ہے۔ بتائیے ماں باپ کی یاد میں مزہ آتا ہے یا نہیں۔ تو یہاں رب اس لیے نازل فرمایا کہ میرا نام محبت سے لینا۔ خشک ملاؤں کی طرح میرا ذکر مت کرنا، عاشقانہ ذکر کرنا کہ میں تمہارا پالنے والا ہوں جس طرح اپنے ماں باپ کا محبت سے نام لیتے ہو، ماں باپ کا نام لے کر تمہاری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، کیا تمہارا اصلی پالنے والا میں نہیں ہوں؟ ماں باپ تو متولی تھے، تمہارا اصلی پالنے والا تو میں ہوں، رب العالمین ہوں۔ اس تربیت کی نسبت سے میرا نام محبت سے لینا۔ آگے فرماتے ہیں وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا اور غیر اللہ سے کٹ کر اللہ سے جُڑ جاؤ یعنی اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ غیر اللہ سے کٹنے اور کنارہ کش ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا مخلوق کو چھوڑ کر جنگل میں نکل جاؤ؟ ہر گز نہیں! مطلب یہ ہے کہ قلب کے اعتبار سے مخلوق سے کٹ جاؤ، جسم بستی میں رہے مخلوقِ خدا کے ساتھ ہو لیکن دل اللہ کے ساتھ ہو، رہبانیت حرام ہے ایک تبتل شرعی ہے، ایک غیر شرعی ہے۔ تبتل غیر شرعی جوگیوں اور سادھوؤں کا ہے، ہندوستان کے پنڈتوں اور ہندوؤں کا ہے کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں نکل گئے، بدن پر راکھ مل لی اور درخت کے نیچے آنکھ بند کر کے بیٹھ گئے اور تبتلِ شرعی مسلمانوں کا ہے، اولیاء اللہ کا ہے۔ وہ کیا ہے کہ تعلقاتِ دنیویہ پر علاقۂ خداوندی غالب ہوجائے ، دنیاوی تعلقات پر اللہ تعالیٰ کا تعلق، اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہو جائے اس حقیقت کو جگر مراد آبادی نے یوں تعبیر کیا ہے ؎