خزائن القرآن |
|
کروں گا وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کیوں کہ آپ ہی اس قابل ہیں جس سے مدد طلب کی جائے اور ہماری مدد کو پہنچنا آپ پر احساناً و تفضلا ًواجب ہے اور ہم میں گناہوں سے بچنے کی طاقت نہیں ہے مگر آپ کی حفاظت سے اور نیکیوں کی قوت نہیں ہے مگر آپ کی مدد سے۔ اے اللہ! آپ میرے نفس سے، میری روح سے، میری رگِ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اے اللہ! جب آپ ہماری جان سے بھی زیادہ قریب ہیں تو اقرب کا حق زیادہ ہوتا ہے لیکن ہم کتنے نا لائق ہیں کہ پھر بھی آپ پر جان فدا نہیں کرتے اور گناہوں کے تقاضوں کو برداشت نہیں کرتے اور آپ کو نا خوش کر کے اپنے نفس کو خوش کرتے ہیں جب کہ ہم سے زیادہ آپ ہمارے نزدیک ہیں، آپ کے مقابلے میں ہماری جان اور ہمارا نفس بھی ہم سے دور ہے۔ اس لیے ہم نے سارے جہان سے رُخ پھیر کر اب آپ پر اپنی نظر جمالی ہے اور ہم آپ ہی کو پکارتے ہیں کیوں کہاَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ کے تحت آپ کا حق سب سے زیادہ ہے اس لیے اگر ہم اپنی جان کو شہادت کے لیے پیش کر کے جان آپ پر فدا کردیں تو یہ آپ کا حق ہے کہ جان اپنے قریبی مولیٰ پر فدا کی لیکن حق پھر بھی ادا نہ ہو گا کیوں کہ ؎ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اور ؎ باچنیں نزدیکی و دُوریم دُور در چنیں تاریکیے بفرست نُور مولانا فرماتے ہیں اے اللہ!آپ ہماری جان سے زیادہ ہمارے قریب ہیں وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ لیکن اس نزدیکی کے باوجود ہم آپ سے بے انتہا دور ہیں۔ دوریم دور مبالغہ ہے، تکرارِ لفظ بلا غت کے لیے آتا ہے۔ تو باوجود اس قرب کے کہ آپ ہماری جان سے زیادہ قریب ہیں پھر ہم آپ سے اتنی دور کیوں ہیں؟ اس دوری کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ نفس ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور رکھتا ہے جیسے زمین کا گولا چاند کو آفتاب کے نور سے محروم رکھتا ہے۔ جب کرۂ ارض سورج اور چاند کے درمیان میں پورا حائل ہوجاتا ہے تو پورا چاند بے نور ہو جاتا ہے۔ اور پھر جب حرکت کرتے کرتے یہ زمین کا گولا تھوڑا ہٹتا ہے اور سورج کی تھوڑی سی شعاعیں پڑتی ہیں تو چاند تھوڑا سا روشن ہو جاتا ہے اور وہ چاند کی پہلی تاریخ بنتی ہے اس کے بعد زمین اور ہٹی تو دوسری تاریخ آ گئی یہاں تک کہ ایک دن ایسا آتا ہے کہ زمین کا پورا گولا چاند اور سورج کے درمیان سے ہٹ جاتا ہے۔ اس دن پورا