خزائن القرآن |
|
کا ذریعہہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مؤمنین کے دل پر سکینہ اس لیے نازل کرتا ہوں لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡتاکہ ان کے سابق ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہو جائے کیوں کہ ایمان تو پہلے بھی تھا لیکن معلوم ہوا کہ سکینہ کا نور دل میں آنے کے بعد ان کے موجودہ ایمان پرمستزاد ایمان ہو جاتا ہے، اس کی تفسیر حکیم الامّت مجدد الملّت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سکینہ کا نور عطا ہونے سے پہلے ان کا وہ سابق ایمان کیا تھا؟ اس کا نام تھا ایمانِ عقلی، استدلالی، موروثی یعنی ایمان عقل کی بنیاد پر تھا کہ عقل سے اللہ کو پہچانتا تھا اور استدلالی تھا کہ دلیلوںسے اللہ کو مانتا تھا دلائل سے اللہ کے وجود پر استدلال کرتا تھا اور موروثی تھا کہ امّاں ابّا مسلمان تھے لہٰذا ہم بھی مسلمان ہیں، گائے کا گوشت کھا کر مسلمان بنے ہوئے ہیں لیکن جب سکینہ کا نور عطا ہوتا ہے تو یہ ایمانِ عقلی، استدلالی، موروثیایمانِ ذوقی، حالی، وِجدانی سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایمانِ ذوقی کیا ہے؟ یعنی دل میں مزہ چکھ لیتا ہے کہ میرا اللہ کیسا ہے ،دل مزہ چکھنے لگتا ہے، اللہ کے قرب کی لذّت کو دل چکھ لیتا ہے۔ ذوق معنیٰ چکھنے کے ہیں اور ایمانِ حالی یہ ہے کہ ایمان دل میں اُتر جاتا ہے۔ حال لام مشدد ہے، معنیٰ اُترنے کے ہیں۔ اللہ کو پہچاننے کے لیے اب اس کو کسی استدلال کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ایمان دل میں حال ہوجاتا ہے، دل میں وہ اللہ کومحسوس کرنے لگتا ہے اور ایمانِ وجدانی نصیب ہوتا ہے، وِجدان کے معنیٰ پاجانا یعنی دل میں اللہ کو پا جاتا ہے۔ پھر عالمِ غیب اس کے لیے برائے نام عالمِ غیب رہتا ہے وہ دل کی آنکھوں سے گویا ہر وقت اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کیا عمدہ تعبیر دو شعروں میں فرمائی ہے فرماتے ہیں ؎ غائب ہوا جاتا ہے حجابات کا عالم مشہود لگا ہونے مغیبات کا عالم محسوس لگا ہونے کہ دل عرشِ بریں ہے اللہ رے یہ ان کی ملاقات کا عالم اس ایمانی کیفیت کی شرح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح بخاری میں یہ فرمائی ہے: اَنْ یَّغْلِبَ عَلَیْہِ مُشَاھَدَۃُ الْحَقِّ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَنَّہٗ یَرَاہُ تَعَالٰی شَانُہٗ بِعَیْنِہٖ ؎ ------------------------------