خزائن القرآن |
|
ہوں تاکہ میرے گناہ گار بندے مایوس نہ ہوں۔ اِنَّتاکید ہے، الذُّنُوْبَپر الف لام استغراق کا ہے یعنی کوئی گناہ ایسا نہ ہو گا جس کو اللہ نہ بخش دے اور جَمِیْعًامیں پھر تاکید ہے۔ تین تاکیدوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم تمام گناہوں کو بخش دیں گے۔ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُیہ جملۂ تعلیلیہ ہے، معرضِ علت میں ہے یعنی وجہ بھی بتا دی کہ ہم کیوں بخش دیں گے کیوں کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا، بڑا ہی رحمت والا ہے اور اپنے نامِ پاک غفور کو رحیم پر مقدم فرمایا کہ معلوم بھی ہے ہم بندوں کو کیوں بخش دیتے ہیں؟ بوجہ رحمت کے۔ اپنی شانِ رحمت کی وجہ سے ہم تمہاری مغفرت فرماتے ہیں، تمہارے گناہ محدود ہیں میری مغفرت محدود نہیں ہے، تمہارے گناہ محدود ہیں، میری رحمت محدود نہیں ہے، میری غیر محدود رحمت کے سامنے تمہارے گناہ ایسے ہیں جیسے ایک چڑیا سمندر سے ایک قطرہ اُٹھا لے۔ جو نسبت اس قطرہ کو سمندر سے ہے اتنی بھی تمہارے گناہوں کو میری غیر محدود رحمت و مغفرت سے نہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد کیا ہوا۔ اب تبادلۂ پیغامات کا نقشہ بدل گیا، حضرت وحشی کا کام بن گیا۔ کہا نِعْمَ ھٰذَایہ بہت اچھی آیت ہے فَجَاءَوَ اَسْلَمَ پھر آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)!ھٰذَا لَہٗ خَاصَّۃٌ اَمْ لِلْمُسْلِمِیْنَ عَامَّۃٌ کیا یہ آیت وحشی کے لیے خاص ہے یا سارے مسلمانوں کے لیے ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا بَلْ لِّلْمُسْلِمِیْنَ عَامَّۃٌ قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے اللہ کا یہ فضل عام ہے۔ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا مسیلمہ کذّاب جس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جہاد کرنا پڑا اس کو حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قتل کرا دیا۔ اس وقت بہت سے بڑے بڑے صحابہ جرنیل تھے لیکن یہ نعمت حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے لکھی، یہ شرف اللہ تعالیٰ نے حضرت وحشی کو دینا تھا کہ میرا یہ بندہ قاتلِ حمزہ ہے اسی کے ہاتھوں سے اب ایک ذلیل ترین شخصیت کو قتل کرا دیا جائے تاکہ اس کی عزت قیامت تک امت کے اندر قائم ہو جائے، ہم اپنے اس رُسوا اور ذلیل بندے کی قسمت کو بدلنا چاہتے ہیں، ہم اس کی تاریخ بدلنا چاہتے ہیں، ہم اس کی تاریخ کو سنہرے حروف سے لکھوانا چاہتے ہیں لہٰذا مسیلمہ کذّاب کو حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں سے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ