خزائن القرآن |
|
جواب ارشاد فرمایا کہ یہ فلسفہ کا قاعدۂ مسلمہ ہے کہ قدرت ضدین سے متعلق ہوتی ہے پس اگر حسینوں کو دیکھنے کی آپ کو طاقت ہے تو لا محالہ آپ کو نہ دیکھنے کی بھی طاقت حاصل ہے یعنی جس فعل کو آدمی کر سکتا ہے وہ اس فعل کو نہ کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے ۔ یہ عقلی مسلمات سے ہے۔ بالخصوص سالکین کو شیطان اکثر دو صورتوں سے خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے یا تو بڑائی دل میں ڈال کر تکبر کی لعنت میں مبتلا کر کے خدا سے دور کردیتا ہے یا پھر عورتوں یا لڑکوں کے عشق میں مبتلا کر کے تباہ کر دیتا ہے اور یہ ابتلاء بہت آہستہ رفتار سے کرتا ہے یعنی پہلے غیر محسوس طور پر کسی حسین کی آنکھوں یا تبسم یا کسی ادا سے متأثر کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اختلاط اور میل جول بڑھاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ صرف دل بہلانے میں کیا مضایقہ ہے گناہ نہ کریں گے لیکن جب زہرِ عشق آہستہ آہستہ دل پر چھا جاتا ہے پھر بقول حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ کہ جب کیچڑ زیادہ ہو جاتی ہے تو ہاتھی بھی پھسل جاتا ہے پھر بد عملی کا نمبر بھی آجاتا ہے۔ کبھی آدمی اپنی آنکھیں تو بچا لیتا ہے اور کئی روز تک آنکھیں محفوظ رکھتا ہے پھر شیطان یہ تدبیر اختیار کر تا ہے کہ اس کے پچھلے گناہوں کا لطف یاد دلاتا ہے اور سینے کی خیانت میں مبتلا کر دیتا ہے اور جب ماضی کے گناہوں کا تصور اور لطف اس کے دل کو خیانتِ صدر کے فعل حرام کی ظلمت سے خراب کر دیتا ہے تو دل کے خراب ہونے سے تمام اعضاء خراب ہو جاتے ہیں کیوں کہ دل بادشاہ ہے اور دوسرے تمام اعضاء اس کے تابع ہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ انسان کے اندر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، جب وہ صالح ہو جاتا ہے تمام اعضاء صالح ہوجاتے ہیں اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تمام اعضاء سے خراب اعمال صادر ہونے لگتے ہیں اور وہ قلب ہے۔ لہٰذا شیطان دل کے اندر گناہوں کے وَساوِس کے ذریعہ دل کو خراب کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے پھر جب دل شہوت سے مغلوب ہوجاتا ہے تو وہ اپنی آرزو کی تکمیل کے لیے آنکھوں کو، کانوں کو اور ہاتھ پاؤں سب کو اپنے کام میں استعمال کرتا ہے پس گناہ کے تصور سے اگر دل نے لطف لے لیا تو اس کا بریک (break)فیل ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ دل اور آنکھوں کا آپس میں بڑا گہرا رابطہ ہے بلکہ دونوں کی بریک لائن ایک ہی ہے چناں چہ آنکھوں کے خراب ہونے سے دل خراب ہو جاتا ہے اور دل کے خراب ہو جانے سے آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں یعنی کبھی آنکھ گناہ میں پہل کر تی ہے پھر دل بھی اس حسین کا تصور کر کے حرام لذت لیتا ہے اسی طرح کبھی دل کسی حسین کو سوچ کر مزہ حرام لیتا ہے پھر آنکھیں اس کو تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دل اور آنکھوں کی حفاظت میں دونوں ہی اہم ہیں، کسی ایک سے غافل ہوا تو دونوں ہی خرابی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے اسی حقیقت کے پیشِ نظر اپنے ارشاد یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ