خزائن القرآن |
|
وقت محبت کا دریا جوش میں ہے۔ اگر صرف بیٹا کہے تو اس وقت محبت میں جوش نہیں لیکن جب کہے میرے بیٹے! میرے بیٹے! تو یہ جوش ِمحبت کی علامت ہے، تو اللہ تعالیٰ نے بھی یا عباد نہیں فرمایا کہ اے بندو! بلکہ یٰعِبَادِی فرمایا کہ اے میرے بندو!یعنی جو ناامید ہیں ان کو اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت سے امیدوار کررہے ہیں، نافرمانوں کو، گناہ گاروںکو، سر کشوں کو، مجرمین کو، نالائقوں کو، امیدِ رحمت دلا رہے ہیں، عبادی فرما کراپنی آغوشِ رحمت میں لے رہے ہیں تاکہ میری رحمت کا ان کو آسرا، سہارا اور اطمینان ہو جائے۔ آہ! یٰعِبَادِیْ میں کیا کرم ہے، کیا شفقت ہے، کیا رحمت ہے۔ ہمارے گناہوں کی وجہ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے بندے نہیں ہو، ماں باپ بھی اپنی نالائق اولاد کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے نہیں ہیں مگر اللہ تعالیٰارحم الراحمین ہیں، ان کی محبت کے آگے ماں باپ کی محبت کیا حقیقت رکھتی ہے؟ وہ فرما رہے ہیں کہ چاہے تم کتنے ہی گناہ گار ہو چاہے تم ایک ہزار، ایک لاکھ، ایک کروڑ ،دس کروڑ ،ایک ارب گناہ کرلو یعنی بے شمار گناہ کر لو مگر میرے ہی رہو گے، میرے دائرۂ عبدیت سے خارج نہیں ہوسکتے، جب تم گناہ کرتے ہو ا س وقت بھی میرے رہتے ہو، میری محبت و رحمت سے اس وقت بھی خارج نہیں ہوتے، پس اے میرے بندوں!جنہوں نے گناہ کر لیے! چاہے بڑے گناہ ہو ں یا چھوٹے گناہ سب اسراف میں داخل ہیں کیوں کہ اسراف کے معنیٰ ہیں وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ کسی شئی کو غیر محل میں رکھ دو تو یہ اسراف ہے تو جو بھی حرام کام ہو گئے گناہ کبیرہ یا صغیرہ ہو گئے، جو بھی نالائقیاں ہوگئیں تو اے میرے بندو !جب تم میرے ہو تو کیوں نا امید ہوتے ہو؟ میں ارحم الراحمین بواسطہ رحمۃللعالمین اعلان کر رہا ہو ں کہ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ میری رحمت سے نا امید مت ہونا تاکہ مایوسی میرے گناہ گار بندوں کو کہیں مجھ سے دور نہ کر دے اور مایوسی کو کس جملہ سے دور فرمایا؟ جملۂاسمیہ سے اِنَّ اللہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ، اِنَّ بھی تاکید کے لیے، اَلذُّنُوْبَ کا الف لام بھی استغراق کا جس میں کفر وشرک، کبائرو صغائر تمام گناہ آگئے اور جملہ بھی اسمیہ جو ثبوت و دوام کو متقاضی ہے یعنی ماضی، حال و مستقبل کسی زمانے میں بھی تم سے گناہ ہوجائے ہماری یہ صفت عَلٰی سَبِیْلِ الْاِسْتِمْرَارِ تم پر کرم فرما ہے۔ اس کے بعد جَمِیْعًا سے مزید تاکید فرما دی۔ اگرچہ الف لام استغراق کا سب گناہوں کو سمیٹے ہوئے تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ہماری تسلی کے لیے جَمِیْعًا نازل فرمایا یعنی گناہ کے جتنے انواع وافراد و اقسام ہیں سب کے سب معاف کر دوں گا، کوئی گناہ نہیں بچے گا جسے میں معاف نہ کردوں۔ اتنی تاکیدوں سے گناہ گاروں کو اپنے قریب فرمارہے ہیں، مایوسی سے بچا رہے ہیں، رحمت سے امیدوار فرمارہے ہیں۔ آہ! کیا شانِ رحمت ہے ؎ میں اُن کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتادے لا مجھ کو دِکھا اُن کی طرح کوئی اگر ہے