خزائن القرآن |
|
ایک ولی بھی دوسرے ولی کے قرب کی تفصیلاتِ کیف سے بے خبر ہوتا ہے، اجمالاً علم ہوتا ہے کہ یہ صاحبِ نسبت ہے لیکن اس کی روح کو جو مقامِ قرب،جو کیفیتِ قرب اور جو لذتِ قرب حاصل ہے اس کا تفصیلی علم ایک دوسرے کو نہیں ہوتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے، اس کا کوئی کفو اور ہمسر نہیں۔ پس جس دل میں اللہ اپنی تجلیاتِ خاصہ سے متجلی ہوتا ہے وہ دل گویا حامل ذاتِ بے مثل ہوتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کو بھی ایک بے مثل شان عطا فرماتے ہیں جس میں وہ منفرد ہوتا ہے، ہر بندہ میں ایک شانِ تفرد اللہ تعالیٰ کی توحید کی علامت ہے۔ ا س لیے ہر ولی کو ایک بے مثل لذّتِ قرب عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍآیت اگرچہ جنّت کے لیے ہے کہ کوئی نفس نہیں جانتا جو آنکھوں کی ٹھنڈک اہلِجنّت کو پوشیدہ طور پر دیں گے لیکن جو شخص جنّت کے راستہ پر چلتا ہے جنّت کی ٹھنڈک کا اثر دنیا ہی میں محسوس ہونے لگتا ہے ؎ ترے تصور میں جانِ عالم مجھے یہ راحت پہنچ رہی ہے کہ جیسے مجھ تک نزول کرکے بہارِ جنّت پہنچ رہی ہے جیسے کوئی دریا کی طرف جا رہا ہے تو ہر قدم پر اس کو پانی کی ٹھنڈک ہواؤں میں محسوس ہونے لگتی ہے لہٰذا یہ تفسیر نہیں لطائفِ قرآن میں سے ہے کہ یہاں نکرہ تحت النفی واقع ہے جو فائدہ عموم کا دیتا ہے یعنی کوئی ایک نفس بھی نہیں جانتا کہ اللہ کے راستے میں جو آنکھوں کی ٹھنڈک، جو اطمینان اور جو لذتِ قرب اس کو عطا ہوتی ہے، ایک ولی بھی دوسرے ولی کے قرب و اتصال مع الحق کی ماہیت اور حقیقت اور تفصیلی کیفیت سے واقف نہیں ہوتا کیوں کہ ہر ایک قلب کو ایک بے مثل اور منفرد لذت عطا ہوتی ہے۔ نکرہ تحت النفی سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ تو ارواح کا معاملہ ہے جس کی لذت کو کوئی کیا بیان کرے گا جب کہ اجسام بھی ایسی لذت چکھتے ہیں جس کو الفاظ و لغت کے دائرہ میں نہیں لایا جا سکتا ہے، اس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، زبان اس کو بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہے مثلاً ایک شخص شامی کباب کھا رہا ہے اور جھوم رہا ہے کہ آہا! بہت لذیذ کباب ہے اب اگر کوئی اس سے کہے کہ بھائی! ذرا بتاؤ تو کہ اس کا کیا مزہ ہے؟ تو وہ کہے گا کہ بیان نہیں کر سکتا ذرا چکھ کے دیکھ لو، جب چکھو گے تب ہی سمجھو گے۔ اسی طرح بیاہ کی لذت ہے۔ تو جب مدرکاتِ اجسامیہ کا یہ عالم ہے کہ ان کو الفاظ میں تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھرمدرکاتِ روحانیہ کا کیا عالم ہوگا، ان کا بدرجۂ اولیٰ الفاظ و لغت کے احاطہ میں لانا محال ہے یعنی جب جسمانی لذتوں کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور الفاظ و لغت سے ان کو تعبیر نہیں کیا جا سکتا تو روحانی لذتوں کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ پس اللہ والوں