خزائن القرآن |
|
بھول جاؤگے، تم چاہو گے بھی تو تمہیں گھن آئے گی، تم خدا کو بھول کر گناہ کرنا بھی چاہوگے تو خدا کی یاد غالب رہے گی اور بدنگاہی نہ کرسکوگے۔ لیکن جب قربِ خاص کی لذّت ملتی ہے تب کہیں جا کر گناہ چھوٹتے ہیں، گناہ ایسے نہیں چھوٹتے۔ تو جب حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ جنگل میں گئے اور حافظ شیرازی کی نظر شیخ کی نظر سے ٹکرائی تو حافظ شیرازی نے ان سے عرض کیا ؎ آناں کہ خاک را بنظرِ کیمیا کنند آیا بُوَد کہ گوشئہ چشمے بما کنند اے میرے شیخ! آپ اس درجہ کے ولی ہیں جو مٹی کو چھولیں تو مٹی سونا بن جائے، جو مٹی کو ایک نظر سے سونا کردیتے ہیں لیکن سونا بننے کے لیے آگ میں تپنا پڑتا ہے اور مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، بڑے غم اُٹھانے کے بعد یہ مقام ملتا ہے، یہ مقام خونِ آرزو سے ملتا ہے۔ بڑے بڑے، موٹے موٹے جسم والے خونِ آرزو کے نام سے کانپتے ہیں اور دُبلے پتلے جسم والے پر اگر اللہ کا فضل ہوجائے تو وہ اپنی آرزوؤں کا خون کر لیتا ہے یعنی حرام آرزوؤں کو کچلنے کا غم برداشت کر لیتا ہے اور بعض ایسے ایسے تگڑے جو تگڑوں کو بھی گرا دیں خونِ آرزو کرنے میں لومڑی بنے ہوئے ہیں رَوْغَانَ الثَّعَالِبِ لومڑیانہ چال چلتے ہیں، اللہ کے نام پر کہتا ہوں کہ لومڑی مت بنیے، نفس پر شیرانہ حملے کیجیے، اسی لیے حافظ شیرازی نے اپنے شیخ سے کہا تھا ؎ آناں کہ خاک را بنظرِ کیمیا کنند آیا بُوَد کہ گوشۂ چشمے بما کنند اے میرے شیخ! آپ کی وہ نظر جو مٹی کو سونا کر دیتی ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ وہ نظر مجھ پر بھی ڈال دیں تو حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ؏ نظر کردم نظر کردم نظر کردم ہم نے آپ کے اوپر نظر تو کر دی لیکن ایک ہی نظر سے کام نہیں بنتا، ایک زمانہ شیخ کی صحبت میں رہنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کام بنتا ہے۔ حافظ شیرازی نے اپنے شیخ حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر اپنے کو مٹی بنا دیا، اپنے نفس کو مٹادیا، ایک زمانہ شیخ کے ساتھ رہے تب اللہ نے انہیں اپنی نسبت عطا