خزائن القرآن |
|
ہیں۔ ایک لباس والے ذَا الثَّوْبِ الْوَاحِدِ بکھرے ہوئے بالوں والے اَشْعَثُ الرَّأْسِ خشک جلد والے جَافُّ الْجِلْدِ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم کس کام میں مشغول ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کو یاد کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ کو کس مقصد کے لیے یاد کر رہے ہو؟ کہااللہ کو خوش کرنے کے لیے ہم سب اللہ کے مرید ہیں،؎ ہمارے دل کی مراد اللہ ہے۔ اب معلوم ہوا کہ مریدِ اصلی کون ہے؟ جس کے دل میں اللہ مراد ہو، جب تک غیر اللہ پر نظر ڈال رہے ہو نقلی مرید ہو، خام مال ہو، کچا کباب ہو، نہ خود مست ہو گے نہ دوسروں کو مست کر سکو گے، جب خود مست ہو جاؤگے قلب جلا بھنا کباب بن جائے گا تب اللہ تعالیٰ آپ کی خوشبو کو سارے عالم میں پھیلا دے گا، جدھر سے گزرو گے اللہ کی خوشبو محسوس ہو گی۔ لہٰذا صرف اللہ ہی کو اپنا مراد بناؤ، اس میں تمام گناہوں کو چھوڑنا بھی شامل ہے۔ جب آپ اللہ کے مرید ہوں گے، اللہ آپ کا مراد ہوگا تو پھر غیر اللہ پر کیسے نظر ڈالو گے؟ تو اس آیت میں سالکین اور مریدین کے لیے دو سبق ہیں: ایک سبق یادِ الٰہی ہے اور دوسرا غیر اللہ سے، گناہوں سے اور اللہ کی ناراضگیوں سے بچنا ہے۔ ایک طرف اللہ کو خوش کرنا ہے تو دوسری طرف اللہ کی ناخوشی سے بچنا ہے ؎ خوشی پر ان کی جینا اور مرنا ہی محبت ہے نہ کچھ پروائے بدنامی، نہ کچھ پروائے عالم ہے آپ بتاؤ! محبت کے دو حق ہیں یا نہیں، محبوب خوش ہو جائے یہ ایک حق ہے اور محبوب نا خوش نہ ہو یہ دوسرا حق ہے۔ جو ظالم اللہ کو خوش کرنے کا اہتمام کرے اور ناخوش نہ کرنے کا اہتمام نہ کرے تو یہ دعویٰ محبت میں ابھی خام ہے۔ قرآنِ پاک کی اس آیت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اصلی سالک، اللہ کا اصلی عاشق وہی ہے جو اللہ کی خوشی کے اعمال کرتا ہے اور اللہ کو ناراض کرنے والے اعمال سے یعنی گناہوں سے بچنے میں، بد نظری سے بچنے میں جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ بس ہمت سے کام کر لو تو ان شاء اللہ گناہوں کے خس و خاشاک جلتے جائیں گے اور اللہ کا نام لینے سے رنگ گلشنِ محبت نکھرتا جائے گا پھر جب اللہ تعالیٰ کا قربِ خاص ملے گا تو واللہ! اخترؔ قسم کھا کر کہتا ہے کہ یہ ساری کائنات تمہاری نگاہوں سے گر جائے گی، تم جو انِ بدبودار مقامات کے چکروں میں پڑے ہوئے ہو سب ------------------------------