خزائن القرآن |
|
جب ہر نعمت پر شکر ادا کرنے کا حکم ہے تو ترکِ معصیت پر کیوں شکر ادا نہیں کرتے؟ اس نعمت پر تو سب سے زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے کیوں کہ اس نعمت کے بغیر کوئی ولی اللہ نہیں بن سکتا اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا کوئی ولی نہیں ہے لیکن وہ جو گناہوں سے بچتے ہیں یعنی میرے ولی صرف وہ ہیں جو مجھے ناراض نہیں کرتے۔ وہ کیسے دوست ہو سکتے ہیں جو میری نا فرمانی پر دلیری اور جرأت کرتے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں فرمایا کہ تہجد پڑھنے والے یا ذکر کرنے والے یا اوّابین پڑھنے والے یا صلوٰۃ اشراق و چاشت پڑھنے والے میرے دوست ہیں بلکہ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَفرمایا کہ میرے دوست صرف اہلِ تقویٰ ہیں۔ لہٰذا جس کو کسی گناہ کے مشغلہ سے چھٹی مل جائے اس کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے تاکہ شکر کی برکت سے حسبِ وعدۂ الٰہی اور زیادہ مدد آئے، اور زیادہ فضل ورحمت نازل ہو،اور زیادہ توفیق ہو اور شکر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر آج ہم میں نوّے فیصد تقویٰ ہے تو شکر کی برکت سے سو فیصد ہو جائے گا کیوں کہ شکر پر نعمت میں اضافہ کا وعدہ ہے لَاَزِیْدَنَّکُمْفرمایا کہ ہم کماًّ اور کیفاً نعمت میں اضافہ کریں گے ، جس کمیت سے متقی ہو اس کیفیت میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور کیفیت میں اضافہ یہ ہے کہ صرف تقویٰ اختیار کرو گے اور گناہوں سے فرار اختیار کرو گے اور اگر کبھی احیاناً خطا ہو گئی تو نہایت ندامت کی کیفیت طاری ہو گی۔ پس شکر سے تقویٰ میں ترقی ہو گی اور ترقی پر شکر کرے گا تو تقویٰ میں اور اضافہ ہو گا اور اضافہ پر شکر کرے گا تو نعمت میں مزید ترقی ہو گی اور اس طرح ترقی کا تسلسل قائم ہو جائے گا۔پس شکر ترقی فی التقویٰ کا اور ترقی فی التقویٰ ترقی فی الولایت کا ذریعہ ہے۔ سب سے بڑی نعمت ترکِ معصیت یعنی تقویٰ ہے۔ اس لیے اس نعمت پر شکر کرنا بھی سب سے زیادہ ضروری ہے کیوں کہ اس نعمت کے بغیر کوئی ولی اللہ نہیں بن سکتا، غیر متقی کو اللہ کی دوستی مل ہی نہیں سکتی، جب تقویٰ کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت اللہ کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے اور متقی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے کبھی گناہ ہی نہ ہو۔ متقی رہنا اتنا ہی آسان ہے جتنا با وضو رہنا۔ اگر وضو ٹوٹ جائے تو پھر وضو کر لو۔ اگر گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کر کے پھر متقی بن جاؤ۔ اوّل تو کوشش کرنے سے ان شاء اللہ! گناہ بالکل چھوٹ جاتے ہیں جس کے دل میں اللہ تعالیٰ آجاتا ہے اس کو گناہوں سے شرم آتی ہے۔ میرا شعر ہے ؎ جب تجلی اُن کی ہوتی ہے دلِ برباد میں آرزوئے ماسویٰ سے خود ہی شرماتا ہے دل لیکن اگر باوجود کوشش کے پھر گناہ ہو جائے تو توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ