خزائن القرآن |
|
نیک اور مقبول بندوں کے فیضِ صحبت سے دین کی خوش فہمی عطا فرمائی ہے ان کا قلبِ سلیم رنج و تکلیف کی حالت میں بھی اپنے رب سے راضی رہتا ہے، اس وقت وہ بندے دین کی اس سمجھ سے کام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ دنیا شِفا خانہ ہے اور ہم سب مریض ہیں۔ طبیب کبھی مریض کو حلوہ بادام کھلاتا ہے اور کبھی چرائتہ و گلونیب جیسی تلخ دوائیں پلاتا ہے اور دونوں حالتوں میں مریض ہی کا نفع ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ حکیم بھی ہیں حاکم بھی ہیں، رحیم بھی ہیں پس ہمارے اوپر تقدیرِ الٰہی سے جو حالات بھی آتے رہتے ہیں خواہ راحت کے ہوں یا تکلیف کے ہر حال میں ہمارا ہی نفع ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ علمِ الٰہی میں بعض بندوں کے لیےجنّت کا جو عالی مقام تجویز ہو چکا ہے لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے ان کے پاس عمل نہیں ہوتا تو حق تعالیٰ انہیں کسی مصیبت میں مبتلا فرما دیتے ہیں جس پر صبر کر کے وہ اس مقام کو حاصل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب بندۂ مؤمن کو بخار آتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح موسمِ خزاں میں درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔ ایک حدیث میں وارِد ہے کہ مؤمن کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس پر بھی اجر ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جب دنیا کے مصائب پر صبر کے عوض قیامت کے دن ثواب عطا ہونے لگیں گے تو ہر مصیبت زدہ بندہ تمنا کرے گا کہ کاش! دنیا میں میری کھال قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاتی تو آج کیا ہی اچھا انعام ملتا۔ پس مؤمن کو چاہیے کہ تکلیف کی حالت میں بھی راضی رہے یعنی زبان پر شکایت اور دل میں اعتراض نہ لائے البتہ گناہوں سے استغفار اور عافیت کی دعا خوب کرتا رہے کہ اے اللہ! ہم کمزور ہیں، بلاؤں کے تحمل کی طاقت نہیں، آپ اپنی رحمت سے اس نعمتِ بلا کو عافیت کی نعمت سے تبدیل فرما دیجیے، مصیبت و بلا کو مانگنے کی ممانعت ہے اور عافیت طلب کرنے کا حکم ہے۔ بلاؤں کا مانگنا اپنی بہادری کا دعویٰ ہے اور عافیت مانگنا اپنے ضعف و عاجزی کا اظہار ہے جو عنداللہ محبوب ہے۔ اگر ہمیشہ عافیت و راحت ہی رہے تو مزاجِ عبدیت استقامت سے ہٹ جائے، بغیر تکلیف و مصیبت کے زاری و شکستگی پیدا نہیں ہوتی۔ حدیثِ قدسی میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس رہتا ہوں: اَنَا عِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ لِاَجْلِیْ؎ صبر سے دل ٹوٹ جاتا ہے کیوں کہ صبر تلخ ہوتا ہے۔ حزن و غم کی حالت میں جس توجہ عاجزی و اضطرار کے ------------------------------