خزائن القرآن |
|
جب تک تمہارے رب کی رحمت کا سایہ رہے گا تمہارا نفس بھی تم کو برباد نہیں کر سکتا۔ حقیقت میں سب کچھ اختیار آپ کا ہے، وجود آپ کا ہی ہے، ہمارا وجود فانی ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ اس کو وجود کہا جائے جیسے سورج ستاروں سے کہہ سکتا ہے کہ تمہارا وجود ہے مگر مثل عدم کے ہے۔ ہماری ہستیاں حق تعالیٰ کی ہستی کے فیضان سے ہیں، ہماری ذات خود سے قائم نہیں بلکہ ہم حق تعالیٰ کے کرم سے اور ان کے فیضانِ صفتِ ’’حی‘‘اور فیضانِ صفتِ ’’قیوم‘‘ سے قائم ہیں۔ جس دن صفتِ حی اور صفتِ قیوم کے ظہور کو اللہ تعالیٰ ہٹا دیں گے اس دن آسمان گر پڑے گا، سورج اور چاند گر پڑیں گے اور قیامت قائم ہو جائے گی۔ محدثین نے لکھا ہے کہ اللہ کے ان دو ناموں حی اور قیوم سے سارا عالم قائم ہے۔ تو مولانا کا اشارہ یہی ہے کہ ہمارا وجود کوئی حقیقت نہیں رکھتا، ہماری گویائی، بینائی، شنوائی سب آپ کی مدد سے ہے ورنہ حقیقتاً گویائی آپ کی گویائی ہے، شنوائی آپ کی شنوائی ہے، وجود آپ کا وجود ہے کہ ازل سے ابد تک ہے۔ آپ قدیم ہیں، غیر فانی ہیں، قادرِ مطلق ہیں، ہم حادث اور فانی ہیں، ضعیف ہیں لہٰذا ہمارا بولنا کوئی بولنا ہے، ہمارا سننا کوئی سننا ہے، ہمارا وجود کوئی وجود ہے کہ ابھی ہم بول رہے ہیں ، سن رہے ہیں اور ابھی روح نکل جائے تو خاموشی ہے، سماعت بند اور بینائی ختم۔ ہم بالکل لاشیء ہیں، آپ کے تابع ہیں اور انتہائی بے کس ہیں۔ یہاں ایک اِشکال ہوتا ہے کہ جب ہم بالکل بے کس ہیں تو جزا اور سزا کیوں ہے؟ جیسے ایک شخص ایسا ہی ایک مضمون پڑھ کر ایک باغ میں گھس گیا اور انگور کھانے لگا اور جب باغ کا مالک آیا تو اس نے پوچھا کہ میرے درخت کے انگور کیوں کھاتا ہے؟ اور یہ سیب کیوں کھا لیے؟ یہ سب میرے درخت کے ہیں تو اس نے کہا: تم غلط کہتے ہو، زمین بھی خدا کی، آسمان بھی خدا کا، میں بھی خدا کا اور درخت بھی خدا کے، انگور بھی خدا کے اور سیب بھی خدا کا۔ خبردار! جو مجھے کھانے سے منع کیا۔ تو مالکِ باغ نے کہا: اچھی بات ہے۔ ابھی بتاتا ہوں اور ایک رسہ لے آیا اور اس سے اس کو خوب باندھ دیا اور ایک ڈنڈے سے اس کی پٹائی شروع کی تو وہ چلانے لگا کہ کیوں مارتا ہے؟ تو مالکِ باغ نے جواب دیا کہ میں بھی خد اکا، تو بھی خدا کا، رسہ بھی خدا کا، اور ڈنڈا بھی خدا کا خبردار! جو چلایا! تو اس وقت اس نے کہا :اختیار است اختیار است اختیار میں توبہ کرتا ہوں، میں مجبور نہیں ہوں، مجھے اختیار ہے، اختیار ہے ۔ ماہمہ لاشیم سے مولانا فرقۂ جبریہ کی تائید نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنی بے کسی اور عاجزی ظاہر کر کے حق تعالیٰ کی رحمت سے درخواست کررہے ہیں۔ دونوں میں فرق ہے اور مندرجہ بالا واقعہ بھی مثنوی کا ہے جس میں فرقۂ جبریہ کا رد ہے۔ اے خدا! ہم مجبور نہیں ہیں۔ یہ جو ہم نے اپنے کو آپ کے حوالہ کیا ہے کہ ہم لاشئی ہیں اور آپ ہی