خزائن القرآن |
|
اضافی ہوگا۔ حوروں کے اندر وہ نور نہیں ہوگا۔ اللہ جس پر اپنا نور ڈال دے اس کے حسن کا کیا عالم ہوگا۔ مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے تھے تو مسکراتے ہوئے آتے تھے، آنکھ بند کر کے عرشِ اعظم پر نہیں رہتے تھے، زمین والوں کا حق بھی ادا کرتے تھے حالاں کہ آپ کو امت کا کتنا غم تھا، ہر وقت کفار سے مقابلہ، ایک جہاد ختم ہوا، ابھی تلوار رکھنے نہیں پائے کہ دوسرے جہاد کا اعلان ہو گیا لیکن اس کے باوجود کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ گھر میں داخل ہوئے ہوں اور چہرۂ مبارک پر تبسم نہ ہو۔ اپنی بیویوں کے پاس مسکراتے ہوئے آنا، یہ سنّت آج چھوٹی ہوئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سب سے اچھے اخلاق والا وہ ہے جس کے اخلاق بیوی کے ساتھ اچھے ہیں۔ ہم دوستوں میں خوب ہنسیں گے، خوب لطیفے سنائیں گے اور بیوی کے پاس جا کر سنجیدہ بزرگ بن جائیں گے، منہ سکوڑے ہوئے جیسے ہنسنا جانتے ہی نہیں۔ اور وہ بے چاری تعجب میں ہے کہ یااللہ! میں دن بھر منتظر تھی کہ رات میں آئے گا تو اپنے شوہر سے ہنسوں بولوں گی اور یہ پتھر کا بُت بنا ہوا ہے۔ یہ مسکرانا، ہنسنا، بولنا عبادت میں داخل ہے۔ رات بھر نوافل میں جاگنا اور بیوی سے بات نہ کرنا یہ صحابہ کی سنّت کے بھی خلاف ہے۔ ایک کم عمر صحابی کے پاس ایک بڑی عمر کے صحابی گئے۔ انہوں نے عبادت شروع کر دی تو ان بزرگ صحابی نے فرمایا: فَاِنَّ لِاَہْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَّ اِنَّ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا؎ تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، میں تمہارا مہمان ہوں مجھ سے باتیں کرو۔ اس کے بعد فرمایا کہ جاؤ اب اپنی بیوی کا حق ادا کرو اس سے بھی باتیں کرو۔ قرآن کریم کی رو سے نیک بیوی وہ ہے جو مرد کی حاکمیت کو تسلیم کرکے اس کی اطاعت کرے، اس کے تمام حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پیٹھ پیچھے اپنے نفس اور مال کی حفاظت کرے، اپنی عصمت اور مال کی حفاظت جو اُمورِ خانہ داری میں سب سے اہم ہیں ان کے بجا لانے میں خاوند کے سامنے اور پیچھے کا حال بالکل برابر رکھے، یہ نہیں کہ خاوند کے سامنے تو اس کا اہتمام کرے اور اس کی عدم موجودگی میں لاپرواہی برتے۔ ایک حدیث میں اس کی مزید تشریح ہے،حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ------------------------------