خزائن القرآن |
|
نہیں ہو۔ وہ لوگ کفر پر مرنے سے جہنم میں گئے اور تمہارے ساتھی شہید ہو کر جنّت میں داخل ہوئے۔ جو کفر پر مرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جو شہیدہوتا ہے اس کا قطرۂ خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اس کا حوروں سے نکاح ہو جاتا ہے اور شہید کو کچھ تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں ہے کہ شہید کو بس اتنی تکلیف ہوتی ہے جیسے کوئی چیونٹی کاٹ لے۔ اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ آگے فرماتے ہیں:وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ہم ان دِنوں کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں یعنی کبھی ایک قوم کو غالب کر دیا اور دوسری کو مغلوب کر دیا اور کبھی اس کے برعکس کر دیا اور دِنوں کو اس طرح بدلنے میں بڑی حکمتیں ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر صحابہ ہمیشہ فاتح رہتے اور ان کو کبھی شکست نہ ہوتی تو پھر ایک بھی کافر نہ رہتا فَاِنَّ الْکُفَّارَ یَدْخُلُوْنَ فِی الْاِسْلَامِ عَلٰی سَبِیْلِ الْیُمْنِ وَ التَّفَآ ؤُلِ؎ تو کفّار سب کے سب صرف برکت اور نیک شگونی کے طور پر اسلام میں داخل ہو جاتے کہ یہ بہت کامیاب اور مبارک قوم ہے جس کو ہمیشہ فتح حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کے لیے اخلاص سے اسلام قبول نہ کرتے جیسے الیکشن کے زمانے میں بعض سیاسی لوگ ہوا کا رُخ دیکھتے ہیں کہ کون سیاسی جماعت جیتے گی تو جیتنے والی جماعت میں صرف کرسی کے لیے داخل ہوجاتے ہیں، ان کے سامنے کوئی نیک مقصد نہیں ہوتا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ کی ایک حکمت تحریر فرماتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ صرف مخلصین، اللہ کے عاشقین اسلام میں داخل ہوں، دنیوی کامیابی اور فتح چاہنے والے غیر مخلصین سے اسلام کا دامن پاک رہے۔ آگے اللہ تعالیٰ شہادت کا راز بیان فرما رہے ہیں کہ صحابہ کو ہم نے شہادت کیوں دی ہے، ہمیں تو ان کے ایمان و یقین کا علم تھا ہی وَ لِیَعۡلَمَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تاکہ میرا علم جو مخلوق پر مخفی تھا وہ ظاہر ہو جائے کہ اللہ کے عاشق ایسے ہوتے ہیں کہ جان دے دیتے ہیں، خونِ شہادت قبول کرلیتے ہیں مگر اللہ کو نہیں چھوڑتے کیوں کہ مصیبت کے وقت ہی امتحان ہوتا ہے اور امتحان کے وقت مخلص اور منافق کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے۔ مخلص اللہ پر جان دے دیتا ہے اور منافق اللہ کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے وَلِیَعْلَمَ اللہُ کی تفسیر میں حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں بین القوسین یہ الفاظ بڑھا دیے (تاکہ ظاہری طور پر) بھی اللہ کا علم مخلوق پر ظاہر ہوجائے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ماضی، حال و مستقبل پر ------------------------------