خزائن القرآن |
|
حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رذائل کا اِزالہ مقصود نہیں اِمالہ مقصود ہے یعنی رذائل کو زائل نہیں کیا جا سکتا ان کا رخ پھیرا جا سکتا ہے مثلاًکسی کے اندر غصہ کا مادہ زیادہ ہے، اصلاح سے پہلے اپنے نفس کے لیے کیا کرتا تھا کسی نے بُرا کہہ دیا بس آپے سے باہر ہو گیا، کسی سے کوئی تکلیف پہنچی اس پر صبر نہ کیا اور غصہ نافذ کر دیا۔ لیکن اصلاح کے بعد اسی غصہ کا رخ بدل گیا، اب اللہ کی نافرمانی پر غصہ آتا ہے، خدا تعالیٰ کے دشمنوں سے بغض رکھتا ہے، نفس اگر گناہ کا تقاضا کرتا ہے تو اپنے نفس پر غصہ نافذ کرتا ہے کہ ہر گز تجھے گناہ نہیں کرنے دوں گا۔ غصہ تو ہے لیکن اب امالہ ہو گیا، رخ بدل گیا جو محمود اور پسندیدہ ہے۔ اورکَظْمٌ کے کیا معنی ہیں۔ عرب کے لوگ کَظْمٌ کا استعمال کہاں کرتے تھے؟ قرآن چوں کہ محاورۂ عرب پر نازل ہوا ہے لہٰذا علامہ آلوسی سید محمود بغدادی مفتئ بغداد نے تفسیر روح المعانی میں عربوں کا محاورہ نقل کیا ہے تاکہ قرآن صحیح سمجھ میں آ جائے، فرماتے ہیں کہ کَظْمٌ عرب کی لغت میں اس وقت بولتے تھے جب مشک بھر کر پانی اُبلنے لگتا تھا تو عرب کے لوگ رسی سے اس کا منہ باندھ دیتے تھے۔ لہٰذاکَظْمٌ کے معنی ہیں شَدُّ رَأْسِ الْقِرْبَۃِ عِنْدَ امْتِلَاۤءِ ھَا مشک کا منہ باندھ دینا جب پانی بھر کر اس کے منہ سے نکلنے لگے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ کہ جب تم کو غصہ آ جائے اور تمہارے جسم کی مشک کے منہ سے غصہ میں اول فول گالی گلوچ یا کوئی انتقامی جذباتی اور مضر بات نہ نکل جائے، اس وقت جلدی سےکَظْمٌ کی رسی سے منہ کو باندھ دو اور غصہ کو ضبط کر لو، اسی کا نام ہے کَظْمُ غَیْظٍ۔ اچھا غیظ اور غضب میں کیا فرق ہے؟ جیسے دفتر والے کہتے ہیں کہ آج صاحب کا موڈ ٹھیک نہیں ہے غیظ و غضب میں بیٹھے ہوئے ہیں شاید بیوی سے کچھ نا چاقی ہو گئی۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہنے غیظ و غضب کا فرق بیان کیا ہے۔ غیظ کے معنی ہیں کہ غصہ آئے اور انسان اس کو ضبط کر لے۔ غیظ میں آدمی اندر اندر گھٹتا رہتا ہے اور غضب کے ساتھ ارادہ انتقام کا ہوتا ہے اس لیے غیظ کا استعمال مخلوق کے لیے خاص ہے اللہ تعالیٰ کی طرف غیظ کی نسبت کرنا جائز نہیں۔ یعنی ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچو لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کے غیظ سے بچو، غیظ کا لفظ صرف مخلوق کے لیے خاص ہے اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں۔ اور غضب کا استعمال مشترک ہے خالق کے لیے بھی اور مخلوق کے لیے بھی، یعنی غضب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کی جاتی ہے اور مخلوق کی طرف بھی کی جا سکتی ہے۔؎ ------------------------------