خزائن القرآن |
|
نعمتِ ہبہ میں تین الفاظ سے فاصلہ کر دیا، ایک لَنَا، دوسرا مِنْ اور تیسرا لَدُنْکَ پھر رحمت کی نعمت کو بیان فرمایا تاکہ میرے بندوں کو شوق پیدا ہو جائے کہ وہ کیا چیز ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں سے منگوانا چاہ رہے ہیں، جیسے ابا بچہ کو لڈو دِکھائے اور ذرا سا اونچا کر لے تو بچہ اشتیاق کے مارے اُچھلنے لگتا ہے تو تَشْوِیْقًا لِّقُلُوْبِ الْعِبَادِ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں شوق پیدا کرنے کے لیے فاصلہ فرما دیا۔ اور یہاں رحمت سے کیا مراد ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں فرماتے ہیں: اَلْمُرَادُ بِالرَّحْمَۃِ الْاِنْعَامُ الْمَخْصُوْصُ وَ ھُوَ التَّوْفِیْقُ لِلثُّبَاتِ عَلَی الْحَقِّ یہاں رحمت سے مراد عام رحمت نہیں ہے، روٹی بوٹی لنگوٹی کی نعمت نہیں ہے بلکہ یہاں مراد خاص رحمت ہے اور وہ دین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق ہے جس کو ’’استقامت ‘‘کہتے ہیں۔ پس یہاں رحمت سے مراد استقامت ہے اور استقامت کی نعمت جس کو عطا ہوگئی اس کا خاتمہ بھی ان شاء اللہ ایمان پر ہوگا کیوں کہ جو سیدھے راستے پر جا رہا ہے وہ منزل پر پہنچ جائے گا۔ اور اس کی دلیل کیا ہے؟ کہ یہ عدمِ ازاغت سے شروع ہوا، اس کے بعد ہدایت ملنے پر اظہارِ تشکر سکھایا، آخر میں رحمتِ خاصہ کا سوال ہوا۔ پس سیاق و سباق بتاتے ہیں کہ یہاں رحمت سے مراد استقامت ہے۔ تائب کا شعر ہے ؎ ہماری آہ و فغاں یوں ہی بے سبب تو نہیں ہمارے زخم سیاق و سباق رکھتے ہیں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ ہبہ نازل فرما کر اپنے بندوں کو ایک عظیم تعلیم عطا فرمائی کہ تم نعمتِ استقامت، حسنِ خاتمہ اور جنّت اپنے اعمال سے نہیں پا سکتے لہٰذا ہم سے ہبہ مانگو اور ہبہ میں کوئی معاوضہ نہیں دینا پڑتا، ہبہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ تم میرے پاس اپنے اعمال اعلیٰ درجہ کے پیش کرو تب میں تمہیں استقامت دوں گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ میرے بندے میری عظمتِ غیر محدود کا حق اپنی محدود طاقتوں سے ادا نہیں کر سکتے، اسی لیے وہ ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں اور معافی مانگتے رہتے ہیں، عبادت سے زیادہ استغفار کرتے ہیں کہ ہم سے اللہ تعالیٰ کی عظمتِ غیر محدود کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے لفظ ہبہ نازل فرمایا کہ تم ہم سے یہ رحمتِ ہبہ مانگو کیوں کہ اس رحمت کا تم کوئی معاوضہ ادا نہیں کرسکتے۔ پس نعمتِ استقامت اور عدمِ ازاغت یعنی دل کا ٹیڑھا نہ ہونا جس کے بدلہ میں دائمی جنّت ملے گی یہ تمام نعمتیں قانوناً تم نہیں پا سکتے کیوں کہ قانوناً تم اس کے حقدار نہیں ہوسکتے مثلاً اگر تم نے ساٹھ برس عبادت کی ہے تو ساٹھ برس تک تم جنّت کے حقدار ہو سکتے ہو، ساٹھ برس کی عبادت سے دائمی جنّت کا قانوناً کہاں حق بنتا ہے، لہٰذا ہم سے