خزائن القرآن |
|
جا رہا ہے کیوں کہ شروع میں عدمِ ازاغت کا سوال کیا گیا اس لیے یہاں وہ خاص رحمت مانگی جا رہی ہے جو ازاغت اور کجی سے قلب کو محفوظ فرما دے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اَلْمُرَادُ بِھٰذِہِ الرَّحْمَۃِ ا لْاِسْتِقَامَۃُ عَلَی الدِّیْنِ وَحُسْنُ الْخَاتِمَۃِ؎ اور لفظ ہبہ سے کیوں مانگنا سکھایا گیا؟ کیوں کہ استقامت علی الدین اور حسنِ خاتمہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جس کی برکت سے جہنم سے نجات اور دائمی جنّت نصیب ہوگی۔ یہ ہماری محدود زندگی کے محدود اور ناقص مجاہدات و ریاضات کا صلہ ہر گز نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو متنبہ فرما دیا کہ خبردار! میری اس رحمتِ خاصہ کو اپنے کسی عمل اور کسی مجاہدہ اور کسی ریاضت کا بدلہ نہ سمجھنا کیوں کہ حسنِ خاتمہ میرا وہ عظیم الشان انعام اور وہ غیر محدود رحمت ہے جو دائماً دخولِ جنّت کا سبب ہے جس کا تم کوئی معاوضہ ادا نہیں کر سکتے کیوں کہ مثلاً اگر تم نے سو سال عبادت کی تو قانون اور ضابطہ سے سو سال تک تمہیں جنّت میں رہنے کا جواز ہوسکتا تھا لیکن محدود عمل پر یہ غیر محدود انعام اور غیر فانی حیات کے ساتھ غیر فانی جنّت عطا ہونا یہ صرف میری عطا اور میرا کرم ہے، اس کرم کا سبب محض کرم ہے لہٰذا میری یہ رحمتِ خاصہ اور انعامِ عظیم لینے کے لیے لفظ ہبہ سے درخواست کرو کیوں کہہبہ بدونِ معاوضہ ہوتا ہے اور ہبہ میں واہب اپنے غیر متناہی کرم سے جو چاہے عطا فرما دے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَ فِی اخْتِیَارِ صِیْغَۃِ الْھِبَۃِ اِیْمَاءٌ اِلٰی اَنَّ ھٰذِہِ الرَّحْمَۃَ اَیْ ذٰلِکَ التَّوْفِیْقَ لِلْاِسْتِقَامَۃِ عَلَی الْحَقِّ تَفَضُّلٌ مَّحْضٌ بِدُوْنِ شَائِبَۃِ وُجُوْبٍ عَلَیْہِ تَعَالٰی شَانُہٗ اور صیغۂ ہبہ اختیار فرما کر حق تعالیٰ نے یہ اشارہ فرما دیا کہ یہ رحمت جس سے مراد وہ توفیقِ خاص ہے جس سے بندوں کودین پر استقامت نصیب ہوتی ہے اور جو سبب ہے حسنِ خاتمہ کا یہ محض حق تعالیٰ کا فضلِ عظیم ہے جس کو چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں اور آگے اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ معرضِ تعلیل میں ہے کہ تم کو ہم سے اس نعمتِ عظمیٰ کو ہبہ سے مانگنے کا کیا حق ہے؟ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ معنی میںلِاَنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ کے ہے۔ ہم آپ سے اس لیے مانگ رہے ہیں کیوں کہ آپ بہت بڑے داتا اور بہت بڑے بخشش کرنے والے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ سید محمود بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ عدمِ ازاغۃ کے مقابلے میں جس رحمت کو طلب کرنے کا ذکر ہے اس سے مراد رحمتِ عام کے ساتھ یہاں رحمتِ خاص بھی ہے: ------------------------------