خزائن القرآن |
|
دو تو میں معاف کردوں گا۔ تو کیا اس میں کسی کو شبہ ہو گا؟ پھر سلطان السلاطین ،احکم الحاکمین، معافی کا جو مضمون خود نازل فرما دیں اس کی مقبولیت میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ شانہ جن کو حساب لینا ہے وہ معافی کا مضمون نازل کر رہے ہیں کہ کہو وَاعْفُ عَنَّا اے اللہ! ہم کو معاف کر دے وَاغْفِرْ لَنَا اور ہم کو بخش دیجیے وَارْحَمْنَااور ہم پر رحم فرما دیجیے اَنْتَ مَوۡلٰىنَا آپ ہمارے مولیٰ ہیں۔ا ب اس کی تفسیر عرض کرتا ہوں۔ وَاعْفُ عَنَّا کے کیا معنی ہیں؟ مفتئ بغداد علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ وَاعْفُ عَنَّا کےمعنی ہیںاُمْحُ اٰثَارَ ذُنُوْبِنَا؎ہمارے گناہوں کے نشانات اور گواہوں کو مٹادیجیےکیوں کہ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو چار گواہ تیار ہو جاتے ہیں: ۱)جس زمین پر گناہ کرتا ہے وہ زمین قیامت کے دن گواہی دے گی۔ سورۂ زلزال میں ہے یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا؎ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ زمین خود بولے گی کہ اس زمین پر اس نے عورتوں کو دیکھا تھا، اس زمین پر اس نے فلاں گناہ کیا تھا۔ ۲)دوسری گواہی خود اپنے اعضاء کی ہو گی کہ جس عضو سے گناہ کیا تھا وہ عضو ہاتھ یا پیر گواہی دیں گے۔ اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ؎ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن منہ سیل کر دیں گے اور ہاتھ پیر بولنے لگیں گے، ہونٹ کہیں گے کہ ہم نے حرام بوسے لیے تھے، کان کہیں گے ہم نے گانے سُنے تھے، آنکھیں کہیں گی کہ ہم دوسرے کی ماں، بہن، بیٹی کو دیکھتے تھے اس طرح سب اعضاء بولنے لگیں گے۔ ۳)تیسرے گواہ فرشتے ہیں کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ؎ کراماً کاتبین تمہارے اعمال سے باخبر ہیں۔ ۴) اور چوتھی گواہی اعمال نامہ ہے وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ؎ ------------------------------