خزائن القرآن |
|
وَ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ؎ ترجمہ:میں تم سے اس دعوت الی اللہ کا کوئی بدلہ اور صلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ تو میرے رب کے پاس ہے۔ اس حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ میں اُمتِ دعوت یعنی کفار بھی شامل ہیں۔ آپ کی شفقت و رحمت کی یہ شان ہے کہ کفار کے ایمان و اسلام کے لیے بھی آپ اپنی جانِ پاک کو گھلا رہے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آیا اور فرمایا اے نبی! کیا ان کافروں کے ایمان نہ لانے کے غم میں آپ اپنی جان دے دیں گے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا ﴿۶﴾؎ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾ ؎ جب دشمنوں پر آپ کی رحمت کی یہ شان ہے تو اہلِ محبت یعنی مؤمنین کے ساتھ آپ کی رحمت و شفقت کا کیا عالم ہوگا؟ اسی کو حق تعالیٰ نے اگلی آیت میں بیان فرما دیا جو تخصیص بعد التعمیم ہے یعنی حَرِیْصٌ عَلَیْکُم میں تو عموم ہے کہ اس میں مؤمنین و کفار دونوں شامل ہیں لیکن آگے مؤمنین کو خاص فرما رہے ہیں کہ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ مؤمنین کے ساتھ تو آپ رؤف و رحیم ہیں یعنی بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔ رأفت کے معنیٰ ہیں دفعِ مضرت اور رحمت کے معنیٰ ہیں جلبِ منفعت تو یہ معنیٰ ہوئے کہ جو باتیں اہلِ ایمان کے لیے مضر ہیں ان کو دفع کرتے ہیں اور جو باتیں مؤمنین کے لیے نفع بخش ہیں وہ عطا کرتے ہیں اور ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین پر آپ کی شانِ رحمت کی یوں شہادت دی ہے کہ اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؎ یعنی اے ایمان والو! جتنی محبت تمہیں اپنی جانوں کے ساتھ ہے ہمارے نبی کو اس سے زیادہ محبت تمہاری جانوں سے ہے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری جانوں کے ساتھ ایسا تعلق ہے جو خود ہمیں اپنی جانوں سے نہیں تو ہم پر آپ کا حق اپنی جان سے زیادہ ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر حق ہے کہ ہم اپنی جان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریںاور اس محبت کا ثبوت یہ ہے کہ ہر کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں کیوں کہ ؎ ------------------------------