خزائن القرآن |
|
والے! مجھے معاف کر دیجیے تو لفظ ’’ربّ‘‘ میں بہت عظیم الشان لطف ہے اور معافی مانگنے میں عجیب مزہ ہے معافی مانگنا بڑا مزے دار عمل ہے، اس کا مزہ کچھ نہ پوچھو لیکن جب مغفرت مانگو تو رحمت بھی مانگو۔ وَ قُلۡ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ؎ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سکھایا کہ قُلْ اے نبی! آپ فرمائیے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ’’قُلْ‘‘ یعنی اس دعا کو ابھی بھی پڑھیے،بعد میں بھی پڑھیے، یہ قل کا ترجمہ ہے پھر یہ دعا ذکر فرمائی کہ’’رَبِّ اغْفِرْ‘‘اے ہمارے پالنے والے! ہم کو بخش دیجیے وَ ارْحَمْ اور رحم بھی کر دیجیے وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ اور آپ بہترین رحم کرنے والے ہیں تو مغفرت کے بعد رحمت کو کیوں نازل فرمایا؟ اس کا جواب علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں دیا کہ مغفرت کے بعد رحمت کا ایک خاص ربط ہے۔ مغفرت کے معنیٰ ہیں سِتْرُ الْقَبِیْحِ وَ اِظْھَارِ الْجَمِیْلِ اللہ تعالیٰ جب معاف فرما دیتے ہیں تو اس کی برائیوں کو چھپا دیتے ہیں اور نیکیوں کو ظاہر فرما دیتے ہیں اور رحمت کے معنیٰ ہیں۔ اَیْ اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِفُنُوْنِ الْاٰلَآءِ مَعَ اسْتِحْقَاقِنَا بِاَفَانِیْنِ الْعِقَابِ؎ اےہمارے اللہ!اب ہمارے اوپر طرح طرح کی نعمتیں برسا دیجیے کیوں کہ آپ نے ہمیں معاف کردیا، ہم کو بخش دیا باوجود اس کے کہ ہم افانین العقاب کے مستحق تھے، فن کی جمع فنون اور فنون کی جمع افانین جو طرح طرح کے عذابوں کا مستحق تھا تو جب ہم نے معافی مانگ لی اور آپ نے ہم کو بخش دیا تو اب ہماری طرح طرح کی نعمتوں سے نوازش کیجیے اس نالائق بندہ کو جو طرح طرح کے عذاب کا مستحق تھا اب اس پر اپنی نعمتوں کی بارش کردیجیے۔ یہ تفسیر روح المعانی پیش کر رہا ہوں جو عربی زبان میں ہے اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ دیکھیے جب بچہ ابّا کو راضی کر لیتا ہے کہ ابّا! معاف کر دو تو جب ابّا! مسکرا دیتا ہے اور بچہ علامت سے سمجھ جاتا ہے کہ اب ابّا نے معاف کر دیا تو پھر ابّا سے کہتا ہے کہ ابّا! پیسہ دیجیے ، لڈو دیجیے، ٹافی دیجیے۔ جس درجہ کا بچہ ہوتا ہے اسی درجہ کی درخواست کرتا ہے، اگر نادان بچہ ہے تو ٹافی ہی پر رہے گا اگر اور سمجھ دار ہے تو لڈو مانگے گا اور سمجھ دار ہے تو موٹر مانگے گا اور سمجھ دار ہے تو بلڈنگ مانگے گا اور سمجھ دار ہے تو کار خانہ مانگے گا، جس طرح ہر بچہ کی مانگ الگ ہوتی ہے اسی طرح ہر بندہ کی درخواست الگ ہوتی ہے۔ بندہ جتنا اللہ کو پہچانتا ہے جتنا اللہ والا ہوتا ہے اس کی درخواست بھی اتنی ہی بلند ہوتی ہے۔ ------------------------------