خزائن القرآن |
|
وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ؎ جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے خون اور حیض میں لتھڑے ہوئے پھر ہمارے سامنے کیا پاک بنتے ہو، اپنے کو تم پاک اور مقدس نہ سمجھا کرو، ہم خوب جانتے ہیں کہ کون کتنا متقی ہے۔ یعنی کون متقی ہے اور کون نہیں، معلوم ہوا کہ پاک کر دن ضروری، پاک گفتن حرام یعنی اپنے کو پاک کرنا واجب ہے لیکن خود کو پاک کہنا اور پاک سمجھنا حرام ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حسن بھی ایک نعمت ہے۔ تو حسن کا شکریہ کیا ہے؟ سورۃ یوسف کی تفسیر میں دیکھیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بہت حسین تھے اس لیے تفسیر روح المعانی میں حسن کے شکر کا طریقہ لکھا ہے۔ کیا یہ شکر ہے کہ کاجل قلوپطرہ لگا کر اپنی چٹک مٹک دکھلاؤ؟ حسن کا شکریہ ہے کہ اپنے حسن کو کسی نافرمانی میں مبتلا نہ ہونے دے، اللہ پاک جس کو حسین پیدا کرے اس کا شکریہ ہے کہ حسن کے خالق کو ناراض نہ کرے، اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں مبتلا نہ ہو: اَنْ لَّا یُشَوِّہَ حُسْنَہٗ فِیْ مَعَاصِی اللہِ تَعَالٰی شَانُہٗ؎ اپنی خوبصورتی کو اللہ تعالیٰ کی معصیت میں استعما ل نہ کرے اور خوبصورتی ایک کلی مشکک ہے۔ کلی مشکک اس کلی کو کہتے ہیں جس میں بہت سے درجات ہوں جیسے کوئی زیادہ حسین ہے، کوئی اس سے کم ہے، کوئی اس سے کم ہے۔ پس جس درجہ میں بھی حسن ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں استعمال نہ کرنا حسن کا شکر ہے حدیثِ پاک کی دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اَنْتَ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ؎ اے اللہ! آپ نے مجھے حسین خلق فرمایا پس آپ کا احسانِ عظیم ہوگا کہ آپ میرے اخلاق کو بھی حسین کر دیجیے تاکہ اس نعمتِ حسن کو آپ کی معصیت میں استعمال کر کے اپنے اخلاق کو میں خراب نہ کروں۔ پھر اگر کوئی فاسق و فاجر اس نعمتِ حسن کو غلط استعمال کرتا ہے تو کوئی تعجب نہیں کیوں کہ وہ تو پہلے ہی خدا سے دور ہے لیکن اگر کوئی اللہ والوں کا صحبت یافتہ مبتلائے معصیت ہو جائے تو آہ! کس قدر افسوس و تعجب کا مقام ہے۔ آہ! مقربِ حق ہو کر دوری کے عذاب میں مبتلا ہے اس لیے ہر گناہ سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہو ------------------------------