خزائن القرآن |
|
۳) بے حساب مغفرت: قیامت کے دن ہمارا حساب نہ لیجیے کیوں کہ جس سے مؤاخذہ ہو گا اس کو عذاب دیا جائے گا۔ ۴) دخولِ جنّت: اور جنّت میں دخولِ اوّلیں نصیب فرما دیجیے۔ اب وَارْحَمْنَا کی تفسیر کرتا ہوں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر سنیے۔ فرماتے ہیں رحم کی درخواست میں اپنے کسی نیک عمل کا استحقاق نہ لانا: اَیْ تَفَضَّلْ عَلَیْنَا بِفُنُوْنِ الْاٰلَآءِ مَعَ اسْتِحْقَاقِنَا بِاَفَانِیْنِ الْعِقَاب اے اللہ! جو بندہ گناہوں کی وجہ سے طرح طرح کے عذاب کا مستحق تھا، فن کی جمع فنون اور فنون کی جمع افانین۔ جو افانین عذاب کا مستحق تھا یعنی اپنے طرح طرح کے گناہوں کی نحوست سے جو طرح طرح کے عذابوں کا مستحق تھا اب معافی اور مغفرت طلب کرنے کے بعد اس پر طرح طرح کی نعمتوں کی بارش فرمائیے۔ اگر حضرت حکیم الامت کی تفسیر بیان القرآن میں اختر ؔنہ دیکھتا تو اس مضمون تک ہمارے دماغ کی رسائی بھی نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی عنایات کو اپنے مجاہدات کی طرف منسوب کرنا نا شکری ہے۔ یہ مت کہو کہ ہمارے مجاہدات کی وجہ سے آپ نے یہ کرم کیا بلکہ یہ کہو کہ آپ کے کرم کا سبب محض آپ کا کرم ہے، میرا کوئی عمل اس کا سبب نہیں۔ توفیقِ عمل بھی آپ کا کرم ہے مگر آپ کے کرم کے عنوانات بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی آپ نے کسی عبادت کی توفیق دے دی اور پھر اس کے بعد اپنے کرم سے اسے قبول فرما کر کوئی نعمت عطا فرما دی۔دیکھو!حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ لینے گئے تھے اور پیغمبری مل گئی۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے ؎ بہت ابھاگن مرگئیں جگت جگت بورائے پیو جے کا چاہیں تو سوتت لیت جگائے یہ ہندی سنو یعنی بہت سے پاگل دنیا میں بھیک کا پیالہ لے کر مارے مارے پھرے اور کچھ نہ ملا اور جس کو اللہ چاہتا ہےسوتے ہوئے کو جگاتا ہے کہ اُٹھ تہجد پڑھ، کہاں غافل پڑا ہے، لے تجھ کو نسبت مع اللہ کی عظیم دولت دیتا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بر بنائے استحقاق مت مانگو کہ میرا حق بنتا ہے۔ بس یہ کہو کہ میرا حق نہیں بنتا، ہماری عبادت آپ کی عظمتِ غیر محدود کے سامنے کچھ نہیں لہٰذا آپ اپنی مہربانیاں محض اپنی