سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
شہود پر آئے اورحضرت پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ کی زندگی میں ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘، ’’معیتِ الٰہیہ‘‘،’’براہینِ قاطعہ‘‘،’’شراب کی حرمت‘‘اور’’ملفوظاتِ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ‘‘ وغیرہ شایع ہوئیں جو حضرت والا ہی کے قلم سے لوگوں تک پہنچیں ۔تحصیلِ علوم دینیہ آپ نے اپنے شیخ کے مدرسہ بیت العلوم میں دینی تعلیم حاصل کی،بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ دارالعلوم دیو بند میں داخلہ لینا چاہیے لیکن حضرت نے انکار کر دیا کہ وہاں مجھے اپنے شیخ کی صحبت نہیں ملے گی جو علم کی روح ہے، فرمایا کہ علم میرے نزدیک درجہ ثانوی اور اللہ تعالیٰ کی محبت درجہ اوّلیں میں ہے،یہاں علم کے ساتھ مجھے شیخ کی صحبت نصیب ہو گی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ ملیں گے۔اسی کی برکت ہے کہ آج بڑے بڑے فضلائے دیو بند حضرت والا کے حلقہ ارادت میں ہیں، حضرت والا نے اتنی محنت سے پڑھا کہ درس نظامی کے آٹھ سال کے نصاب کی چار سال میں تکمیل کی اور بخاری شریف کے چند پارے اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی رحمۃ ا للہ علیہ سے پڑھے، حضرت مولانا شاہ عبد الغنی رحمۃ ا للہ علیہ ایک واسطے سے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اس طرح آپ کی سند بہت عالی ہے۔حضرتِ والا کی سادگیٔ معاشرت حضرتِ والا کی پوری زندگی بے تکلفی و سادگی اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں وارفتگی اور راہِ حق کے مجاہدات سے عبارت ہے۔حضرت شیخ نے اپنا نکاح اعظم گڑھ کے قریب ایک گاؤں کوٹلہ میں نہایت سادگی سے ایک ایسی خاتون سے فرمایا جو عمر میں حضرت والا سے دس سال بڑی تھیں لیکن پورے گاؤں میں ان کی دینداری و بزرگی کا شہرہ تھا،اسی لیے حضرت والا نے ان کا انتخاب فرمایا ۔ حضرت والا فرماتے ہیں کہ شیخ کی صحبت میں مدتِ طویلہ تک رہنا ان کی وجہ سے ہی ممکن ہوا،شیخ پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ کے ساتھ حضرت والا کے شدید والہانہ تعلق