سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
تصانیف معرفتِ الہٰیہ ، معارفِ مثنوی ، کشکولِ معرفت اور روح کی بیماریاں اور ان کا علاج وغیرہ اس بات پر شاہد عدل ہیں۔ حضرت مولانا شیخ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے معارفِ مثنوی کے مطالعہ کے بعد ارشاد فرمایا تھاکہ برادرمحترم مولانا حکیم محمد اختر صاحب مد ظلہ کی تالیفِ لطیف’’ معارف مثنوی‘‘پڑھ کر موصوف سے اتنی عقیدت ہوئی جس کا مجھے تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا اور حضرت والا کی فارسی مثنوی پڑھ کر حضرت بنوری رحمۃ ا للہ علیہ نے فرمایا تھا کہ آپ میں اور مولا نا روم میں کوئی فرق نہیں ۔ حضرت اقدس دامت برکاتہم کی ایک صد کے قریب تصانیف اور مواعظ لاکھوں کی تعداد میں اردو ، انگریزی ، فرانسیسی ، فارسی ،ترکی ، بنگالی ، برمی ، پشتو ، گجراتی، سندھی ، بلوچی اور دیگر زبانوں میں شایع ہو چکے ہیں ۔عارف باللہ کا خطاب حضرت اقدس دامت برکاتہم کو ان کے شیخ محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ ا للہ علیہ نے حیدر آباد دکن ( انڈیا ) میں عارف باللہ کا خطاب دیا جہاں ایک بہت بڑا دینی جلسہ تھا،جلسہ کے منتظمین کو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ ا للہ علیہ نے ہدایت کی کہ اشتہار میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب کے نام سے پہلے عارف باللہ لکھا جائے اور جب مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ ا للہ علیہ کچھ سال قبل جنوبی افریقہ پہنچے اور وہاں پر آپ کا فیض دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور آپ کے بارے میں فرمایا ؎ کرامت ہے یہ تیری تیرے رندوں میں مرے ساقی جہاں رکھ دیں قدم اپنا وہیں میخانہ بن جائے یہ اہل اللہ دل داغِ حسرت سے سجاتے ہیں تب کہیں جا کے اللہ تعالیٰ کو پاتے ہیں،اسی لیے بزرگان دین اور مشایخ کے ایام مجاہدہ دیکھنے چاہئیں نہ کہ ایام فتوحات ۔ حضرت میر عشرت جمیل صاحب نے خوب فرمایا ؎ آہ کیا سمجھے گا وہ فطرتِ شاہانہ تیری جس نے دیکھی ہی تری شان فقیرانہ نہیں