سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
ریت اور ہر طرف ٹیلے ہی ٹیلے نظر آرہے تھے، کہیں کہیں چند کچے مکان نظر پڑتے تھے اور میں خالقِ صحرا کی قدرت پر حیران تھا کہ کہا ں کہاں اپنی مخلوق کو بسایا ہواہے ۔ کراچیایئر پورٹ پر رش کی وجہ سے ہمارے جہاز کو ٹرمینل پر جگہ نہ مل سکی، اس لیے سیڑھی کے ذریعے سواریوں کو اتارا گیا۔جوں ہی جہاز کے دروازے کھلے، تو کراچیایئر پورٹ کے ایوی اسٹیشن کے سب سے بڑے افسر جو حضرت والا کے مرید بھی ہیں،اپنے عملہ کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ حضرت والا کو لفٹ کے ذریعے اتارا گیا اور باقی رفقاء سیڑھیوں کے ذریعے اترے۔ ایوی اسٹیشن کے حضرات اپنی گاڑی میں حضرت والا دامت برکاتہم کو ایئر پورٹ کی عمارت میں لے گئے،جبکہ دیگر احباب بس کے ذریعے عمارت میں پہنچے۔ ایئر پورٹ کی عمارت کے اندر حضرت مولانا مظہر میاں صاحب مدظلہٗ ایئرپورٹ کے افسران کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے، جبکہ باہر عشاق کا ایک جمِ غفیر اپنے محبوب شیخ کے دیدار کے لیے مشتاق کھڑا تھا۔ حضرت والا فوراً ہیایئر پورٹ کی عمارت سے باہرتشریف لے گئے اور احباب سے ملاقات کے بعد خانقاہ روانہ ہوگئے، جبکہ ہم لوگ پاسپورٹ پر انٹری وغیرہ اور سامان وغیرہ کے حصول کے بعد تقریباً پونے گھنٹے کے بعد خانقاہ پہنچے۔خانقاہ کراچی میں چند روز قیام ڈھاکہ سے واپسی پر چند روز حضرت والا کے پاس رہ کر بہاولنگر واپس ہوا۔ بندہ نے ۱۹۸۰ء سے لےکر ۱۹۹۸ء تک خانقاہ پر گمنامی میں وقت گزارا۔ حضرت والا دامت برکاتہم اور حضرت مولانا مظہرمیاں صاحب کے علاوہ نہ کوئی جانتا تھا نہ کسی سے تعلق تھا۔حضرت والا کے ساتھ بندے کایہ پہلا غیر ملکی سفر تھا۔ میرے قلب و جان نے سفر میں کیا محسوس کیا وہ میرا وجدان ہی جانتا ہے، وہ الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا ممکن نہیں۔ بس اتنا مختصر عرض کروں گا کہ ۲۵ دنوں میں ہمہ وقت یہکیفیت رہتی تھی، جیسے عرش کے پاس رہتا ہوں، اور بندے کو یقین تھا کہ اس سفر میں مجھے نفع سب سے زیادہ ہوا ہے