سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
بحرِمغفرت حضرت شیخ نے اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ کی آیت پر ارشاد فرمایا کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی،اگرخطا نہ ہوتی تو معافی کاحکم نازل نہ ہوتا۔ اور پھر اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا فرمایا کہ ہم سے معافی مانگنے کے بعد شک نہ کرنا کہ نہ جانے معاف ہوا یا نہیں؟اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا میں ہمیں اپنی مغفرت کے عطا فرمانے کی یقین دہانی فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معا ف کرنے والا ہے۔یہ آیت فی معرض التعلیل نازل ہوئی ہے یعنی یہ معافی کی علت ہے۔ مثال یہ ہے کہ سمندر میں لاکھوں انسانوں کا پیشاب پائخانہ جاتا ہے،لیکن ایک لہر آتی ہے او ر سب بہا لے جاتی ہے اور سمندر پاک رہتا ہے، تو جب اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کاسمندر تو غیر محدود ہے، تو اس کی ایک موج ہمارے گناہوں کو کس طرح بہا کر نہ لے جائے گی اور بھلا کس طرح معافی نہ ہو گی؟مگر شرط معافی کی یہی ہے کہ معافی مانگو۔ اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ کا حکم خود بتاتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو معاف کرنا چاہتا ہے ۔ جب ابّا اپنے بچے سے کہے جلدی معافی مانگو تو سمجھ لو ابّا معاف کرنا چاہتا ہے ۔ اسی طرح ہمارا ربّا ہم کو معاف کرنا چاہتے ہیں تب ہی ہم کو معافی مانگنے کا حکم دے رہے ہیں،اگر معافی نہ دینی ہوتی تواستغفار کا حکم ہی نہ دیتے۔ اوراسمِ ذات اللہ کے بجائے رب فرمایا کہ میں تمہارا پالنے والا ہوں اور پالنے والا جلد معاف کرتا ہے،کیوں کہ پالنے کی محبت ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب کوئی معافی مانگے، تو فوراً معاف کر دو۔ فرمایا کہ جو معاف نہیں کرے گا وہ حوضِ کوثر پرنہیں آئے گا ۔وَدَرْکِ الشَّقَاء کا معنیٰ ’’اوربدنصیبی نہ پکڑے‘‘اس میں مستقبل کی حفاظت مانگی ہے کہ ہماری قسمت آیندہ خراب نہ ہو جائے۔ اب اس میں ایک اشکال تھا کہ مستقبل کی تو حفاظت مانگی جا رہی ہے لیکن پہلے ہی کو ئی بد نصیبی لکھی ہو،لہٰذا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی سوءِ قضاء سے۔