سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
ہے، بندے کا وہ زمانہ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں طالب علمی کا تھا۔ حضرت والا کی وعظ وارشاد کی مجلس جمعۃ المبارک کو صبح 9بجے سے 10بجے تک ہوتی تھی، ان مجالس میں پابندی سے حاضری ہوتی رہی۔ پھر فراغت کے بعد جب بہاول نگر واپسی ہوئی تو سال میں دو تین مرتبہ کراچی خانقاہ میں حاضری ہوتی ۔ حضرت والا کبھی لاہور تشریف لاتے تو وہاں بھی زیارت کے لیے حاضرہوتا، لیکن پہلے طالب علمانہ مصروفیت اور پھر فراغت کے بعد والد گرامی حضرت مولانا نیاز محمدختنی ترکستانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیرانہ سالی کی وجہ سے جامع العلوم عید گاہ بہاول نگر کے انتظام وانصرام کی مشغولیت کی وجہ سے مسلسل حضرت شیخ دامت برکاتہم کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ مل سکا،مگر اس کی ہمیشہ فکر رہی کہ اصلاح وتزکیہ کا نصاب چالیس روز درخدمت شیخ پورا کیا جائے، یہاں تک کہ 9؍رمضان المبارک 1416ھ بمطابق 1995ء کو حضرت والا نے حرم مکہ شریف میں اجازت وخلافت نامہ لکھ کر یہ بارگراں اس ناتواں پر ڈال دیا۔ اس ذمہ داری کے بعد حضرت شیخ کی خدمت میں چالیس روز قیام کا احساس اور شدت اختیار کر گیا ، لیکن عوارض آڑے آتے رہے، اگرچہ 1998ء میں پچیس روز معیتِ شیخ میں برما وبنگلہ دیش کے سفر کے دوران نصیب ہوئے،لیکن چالیس روزہ نصاب کی بات دل میں کھٹکتی رہی اور اس کمی کو قلب وجان محسوس کرتے رہے۔ پھر 2000ء کے وسط میں حضرت پر فالج کا حملہ ہوا۔ پھر تو یہ احساس تشویش اور قلق میں تبدیل ہوگیا اور جوں ہی طبیعت میں بہتری آنا شروع ہوئی تو بندہ نے اپنے ضروری کا موں کو سمیٹنا شروع کردیا اور 30 ؍رجب المرجب 1421ھ بمطابق28؍ اکتوبر 2000ء بروز ہفتہ حضرت شیخ کی خدمت میں خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال کراچی حاضرِ خدمت ہوگیا اور یکم شعبان سے دس رمضان المبارک تک چالیس دن حضرت والا دامت برکاتہم کی خدمت میں رہنے کا موقع نصیب ہوا۔ وَلِلہِ الْحَمدُوَالشُّکررفقائے چلّہ اور حضرت کا انداز حضرت والا دامت برکاتہم نے بندے کی بہت تحسین فرمائی اور کراچی کے خلفاء جن کا ابھی چلّہ نہیں لگا تھا، انہیں ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ مولانا جلیل احمد اپنی