سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ جدہ سے مکہ مکرمہ کار میں سفر کر رہا تھا ،تو آپ نے دو عجیب باتیں فرمائیں:اوّل بات ہم جس کار میں سفر کر رہے تھے اس کا اے سی چل رہا تھا، اس کے باوجود اس میں خاطر خواہ ٹھنڈک نہیں ہو رہی تھی،تو جو ساتھی کار چلا رہا تھا انہوں نے کہا کہ کسی کی طرف کا شیشہ کھلا ہوا ہے، تو میری ہی جانب کا شیشہ کھلا ہوا تھا، میں نے شیشہ بند کر دیا تو کار ٹھنڈی ہو گئی۔اس پر حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صا حب نے فرمایا کہ ایک علم عظیم عطا ہوا ہے کہ جو لوگ اپنے دل میں ذکر اللہ کا ایئر کنڈیشن چلارہے ہیں،لیکن آنکھوں کا شیشہ نہیں چڑھاتے ، کانوں کاشیشہ نہیں چڑھاتے یعنی قوت باصرہ ، قوتِ سامعہ، قوتِ شامہ ، قوتِ ذائقہ ،قوتِ لامسہ ،ان حواس پر تقویٰ کا شیشہ نہیں چڑھاتے تو ان کے دلوں میں وہ سکون نہیں جو اولیاء اللہ کے دلوں کو ذکرِ کامل سے ملتا ہے۔ ذکر اللہ کے ایئر کنڈیشن سے چین و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک جو دل کو ملتی ہے، اس سے یہ ظالم محروم ہیں۔ فرمایا کہ جس دن تقویٰ کا یہ شیشہ حواس پر چڑھ جائے گا یعنی گناہ چھوٹ جائیں گے،تو اس دن منہ سے جب ایک اللہ نکلے گا زمین سے آسمان تک ایئر کنڈ یشن بن جائے گا اور دل کو سکونِ کامل نصیب ہو جائے گا ۔دوسری بات حضرت شیخ نے فرمایا کہ اس سفر میں جب مکہ مکرمہ تین میل رہ گیا تو ہماری موٹر ایک پیٹرول پمپ پر تیل لینے کے لیے رکی، اتنے میں ایک تیل کا ٹینکر آیا جس پر دس بارہ ہزار گیلن پیٹرول لدا ہوا تھا، وہ بھی تیل لینے کے لیے پیٹرول پمپ پر رکا، تو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دوسرا سبق حاصل کرو کہ جو علماء اپنے باطن کو منور نہیں کرتے، اللہ والوں کی صحبت ،اللہ تعالیٰ کا خوف ، اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا پیٹرول اپنے قلب کے انجن میں حاصل نہیں کرتے، ان