سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
خدمت ِ شیخ میں حاضری حضرتِ والا اپنے شیخ و مرشد کی زیارت اور خدمت میں پہنچنے کے لیے بے چین رہے لیکن سفر سے بعض موانع عارض تھے اس لیے جلد حاضر نہ ہو سکے،اسی دوران اپنے قصبہ کے قریب آبادی سے باہر ایک غیر آباد مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں معمولات پورے فرماتے بالآخر حاضری کا وقت آن پہنچا ،بقر عید کے قریب والدہ صاحبہ سے اجازت لے کر پھولپور روانہ ہو گئے اور عین بقر عید کے دن پھولپور پہنچے ، قلب و جان مسرور تھے خوشی اور مسرت ہر بُنِ مو سے ٹپک رہی تھی۔حضرت پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ تلاوت قرآن مجید میں مشغول تھے ، ٹوپی زمین پر رکھی ہوئی تھی ، بال بکھرے ہوئے تھے، گریباں چاک تھا دیکھتے ہی ایسا معلوم ہوا جیسے حضرت شمس الدین تبریزی رحمۃ ا للہ علیہ کی زیارت کر رہا ہوں جب حضرت پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ متوجہ ہوئے تو عرض کیا میرا نام محمد اخترہے ، پرتاب گڑھ سے اصلاح کے لیے حاضر ہوا ہوں، چالیس دن قیام کا ارادہ ہے۔ حضرت پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ نے اپنے بڑے صاحبزادے کو آپ کے قیام و طعام کا حکم دیا۔ پھر اپنے شیخ کے ساتھ ایسے جڑے کہ سترہ سال شاہ عبد الغنی رحمۃ ا للہ علیہ کی خدمت میں گزار دیے اور دس سال تو ایسے مجاہدات سے گزارے جن کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔حضرت پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ تہجد کے وقت سے عبادت میں مشغول ہوتے تھے، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعداللہ اللہ کا نعرہ لگاتے گویا کہ سینہ میں آتشِ عشق کی اتنی بھاپ بھر جاتی ہےکہ اگر یہ نعرہ نہ لگائیں تو سینہ ہی پھٹ جائے، حضرت والا کا شعر ہے ؎ وقفے وقفے سے آہ کی آواز آتشِ غم کی ترجمانی ہے قر آ ن مجید کی تلاوت کرتے کرتے کبھی بڑی ہی وارفتگی اور بے چینی کے ساتھ فرماتے ؎ آ جا میری آنکھوں میں سما جا میرے دل میں اور کبھی والہانہ انداز میں خواجہ مجذوب رحمۃ ا للہ علیہ کا یہ شعر پڑھتے ؎ میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سر زاہد نہیں یہ سر سر سودائی ہے