سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
مسافر ہوں وہ جس کو بڑھ کے خود منزل نے چاہا ہے مرے پائے شکستہ پر نہ جا مطلوبِ منزل ہوں نگاہ مست ساقی نے کیا ہے رشک جم مجھ کو لیا جاتا ہوں ہاتھوں ہاتھ کیا مقبولِ محفل ہوں کسی کی چشم بے خود سے نہ جانے کیا کرم پایا کہ ہر دم رقص میں ہوں ایسی اک مستی کا حامل ہوں مرے ساقی نے مجھ کو کردیا ہے ایسا مستانہ کہ خود بادہ ہوں خود ساغر ہوں خود ہی میر محفل ہوںحضرت شیخ کا خطاب حضرت شیخ نے خطبۂ مسنونہ کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنمقصدِ حیات ارشاد فرمایا کہ جب تک جینے کا مقصد سامنے نہ ہو وہ زندگی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ زندگی کا مقصد بزنس کرنا،بڑے بڑے عالی شان مکان بنانا،مرسڈیز کار اور صوفے اور قالین اور کھانا پینا نہیں ہے، کیوں کہ اگر یہ مقصدِ حیات ہوتا تو موت کے وقت ان چیزوں کو چھوڑ کر قبر ستان نہ جاتے ۔ معلوم ہوا کہ مال و دولت ، کار اور کاروبار اور کھانا پینا وسیلۂ حیات ہے مقصدِ حیات نہیں ۔مقصدِ حیات خالقِ حیات بیان کرے گا۔ وہ فرماتے ہیں:وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ؎ اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ؎ کہ ------------------------------