سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
محسوس تو ہوتے ہیں دکھائی نہیں دیتے اس چومنے والے کے ہیں لب اور طرح کے تو حضرت والا نے فرمایا کہ اسی پر میرا ایک فارسی شعر ہے ؎ از لب نا دیدہ صد بوسہ رسید من چہ گویم روح را چہ لذت کشید اللہ تعالیٰ نظر نہ آنے والے لبوں سے سینکڑوں بوسے لیتے ہیں، میں بیان نہیں کرسکتا کہ روح کیا لذت حاصل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو نظر بچالے گا اسے حلاوتِ ایمانی دیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لبوں کے بوسے محسوس کرے گا۔جب سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے شکر پیدا ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی،تو خالقِ شکر خود کتنے میٹھے ہوں گے۔ اسی کو مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا ؎ بر لبِ یارم شکر را چہ خبر و ز رخ شمس و قمر را چہ خبر میرے یار کے ہونٹوں کی مٹھاس کو شکر کیا جانے اور اس کے رخ کے نور کو چاند اور سورج کیا سمجھے،کیوں کہ شکر مخلوق ہے تو وہ خالق کی مٹھاس کو کیسے جان سکتی ہے؟ اس طرح چاند اور سورج کا فانی نور اس کے غیر فانی نور کو کیسے پاسکتا ہے ؟اللہ کا قرب جنت سے اعلیٰ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی لذت جنت سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اَللّٰہُمَّ اِنّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ؎ اس میں واؤ عاطفہ ہے،جس کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی ڈش اور ------------------------------