سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اور الحمدللہ! اس بات کی حضرت والادامت برکاتہم نے بھی تصدیق فرمائی۔ جب بندے نے بہاول نگر سے خط میں اس بات کا تذکرہ کیا،توحضرت والا دامت برکاتہم نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میرابھی یہی گمان ہے کہ سب سے زیادہ آپ کو نفع ہواہے۔مجالس بروز جمعۃ المبارک، ۱۳؍مارچ ۱۹۹۸ء حضرت والا دامت برکاتہم کی موجودگی میں بندہ کا بیان چند دن بعد جمعۃ المبارک تھا۔ حضرت والا دامت برکاتہم جمعۃ المبارک کے خطاب کے لیے مسجدِ اشرف میں تشریف لائے ،کرسی پر جلوہ افروز ہوئے، سالکین ، سامعین اور عاشقین کا ہجوم تھا۔ سب مشتاقانہ نگاہوں سے حضر ت شیخ کے چہرۂ انور کو دیکھ رہے تھے ، شاعر نے اسی موقع کے لیے کہا ہے ؎ چہرہ شیخ ہے پَر تو نورِ حق طور سینین ہیں رخ کی تابانیاں اچانک حضرت والا نے مجھے کھڑا ہونے کا حکم فرمایا پھر اپنی زبان مبارک سے میرا تعارف کروایا۔ میری حوصلہ افزائیکے لیے ایسی باتیں فرمائیں،جن کے بارے میں لسانِ شیخ سے ادا ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وہ چیزیں نصیب فرما دیں گے ( ان شاء اللہ تعالیٰ)۔اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ شیخ الحدیث کا منصب بہت بلند و برتر ہے، ہم جیسوں کو اس کا اہل ہونا خواب دکھائی دیتا ہے، لیکن چوں کہ شیخ اس لقب سے مجھے یاد فرماتے ہیں، تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کا اہل بھی فرما دیں گے (ان شاء اللہ)۔ اٹھارہ سال میںیہ پہلا موقع تھا کہ حضرت والا دامت برکاتہم کے حلقہ میں میری پہچان ہوئی اور اس کے بعد الحمدللہ! ان محبتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ واقعی اللہ والے ذرے پر نظر ڈال دیں تو اس کو آفتاب بنا دیتے ہیں۔ پھر حضرت والا نے بندے کو رنگون کے سفر کی روداد بیان کرنے کو فرمایا۔یہ حضرت والا کی موجودگی میں بندے کی پہلی لب کشائی تھی۔ الحمدللہ! اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت والا کی دعا کی برکت سے سفر رنگون کا