سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگ تشریف لا چکے ہیں۔ اس پر حضرت شیخ نے فرمایا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی آمدکی وجہ سے مجھے بھی عرصہ سے رنگون آنے کا شوق تھا۔ الحمد للہ! پہلی مرتبہ حاضری ہوئی ہے۔ حضرت شیخ نے اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا کہ حضرت کے والد گرامی محمود الحق صاحب نامور اور مشہور وکیل تھے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بے حد عشق تھا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے مجازِ صحبت سے نوازے گئے۔ حضرت کے پانچ صاحبزادے تھے،جن میں چارانگریزی پڑھے ہوئے اور ایک حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃاللہ علیہ تھے، جب بھی وہ کسی انگریزی داں بیٹے کو پانی لانے کا حکم دیتے وہ نوکروں سے کہہ دیتے کہ پانی لا دو،لیکن جب حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پانی کے لیے کہتے تو آپ خود پانی لاکر پیش فرماتے ۔مدتِ صحبت باشیخ حضرت شیخ نے صحبت کے بارے میں حضرت شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہعلیہ کا ملفوظ بیان فرمایا کہ صحبت اس وقت مفید ہوتی ہے جب ایک خاص مد ت تک ہو اور مسلسل ہواور وہ چالیس دن ہے۔ جس طرح مرغی اکیس دن تک مسلسل اپنے انڈوں کو سیتی ہے تب جا کر انڈوں میں حیات پیدا ہوتی ہے۔ پھر مرغی کو انڈے توڑنے نہیں پڑتے،بچے خود توڑ کرباہرآجاتے ہیں۔اسی طرح انسان جب چالیس دن تک مسلسل کسی اللہ والے کے پاس رہے،تو حیاتِ ایمانی پیدا ہو گی اور وہ انسان نفس کے خول سے خود باہر آجاتا ہے اور گناہوں کی زنجیروں کو خودتوڑ دیتا ہے ؎ کھینچی جو ایک آہ تو زنداں نہیں رہا مارا جو ایک ہاتھ گریباں نہیں رہا پھر حضرت شیخ نے فرمایا کہ اللہ والے ہر چیز کو دیدۂ عبرت سے دیکھتے ہیں اور اس سے سبق حاصل کرتے ہیں۔چناں چہ جب میں اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب