سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
عبد الحفیظ جونپوری یہ بھی مشہور شاعر تھے اور بہت شراب پیتے تھے۔ جب توبہ کی توفیق ہوئی تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت ہو گئے اور بیعت بھی اس طرح ہوئے کہ پہلے چند دن خانقاہ میں قیام کیا،تھوڑی تھوڑی سی داڑھی آگئی تھی، جس دن بیعت ہونا تھا اس دن داڑھی کو صاف کر کے خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب توبہ ہی کرنی تھی تو پھر اس چہرے کے نور کو کیوں صاف کیا؟ تو عرض کیا کہ حضرت!آپ حکیم الامت ہیں،میں مریض الامت ہوں اور مریض کو اپنا پورا مرض حکیم کے سامنے پیش کرنا چاہیے، تاکہ وہ صحیح نسخہ تجویز کرے، اب وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی داڑھی نہیں منڈاؤں گا۔ پھر حضر ت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سال بعد جونپور تشریف لے گئے،تو ان کی داڑھی خوب بڑھ چکی تھی تو حضرت نے فرمایا کہ یہ بڑے میاں کون ہیں؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ وہی عبد الحفیظ جونپوری ہیں جو تھانہ بھون بیعت کے لیے گئے تھے ۔ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ان کا خاتمہ بڑا اچھا ہوا۔موت سے تین دن پہلے ان پر ایسا خوفِ الٰہی طاری ہوا کہ تڑپ تڑپ کر ایک دیوار سے دوسری دیوار کی طرف جاتے تھے اور رو رو کر جان دےدی اور اپنے دیوان میں یہ اشعار بڑھا گئے ؎ میری کھل کر سیاہ کاری تو دیکھو اور ان کی شانِ ستاری تو دیکھو گڑا جاتا ہوں جیتے جی زمیں میں گناہوں کی گراں باری تو دیکھو ہوا بیعت حفیظ اشرف علی سے بایں غفلت یہ ہوشیاری تو دیکھو