سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
بڑی ش چھوٹی س سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ جب بڑھاپے میں ان کے کالے بال سفید ہوجاتے ہیں اور سفید چوٹی بوڑھے گدھے کی دم معلوم ہوتی ہے اور جن رس بھری آنکھوں پر مرے تھے ان سے کیچڑ بہنے لگتا ہے اور جن ہونٹوں پر وہ میر کا یہ شعر پڑھتے تھے ؎ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے جب لقوہ سے اسی معشوق کا منہ ٹیڑھا ہوگیا اور گلاب کی پنکھڑی لوہے کی ہتھکڑی معلوم ہونے لگی،اس وقت ان کی چال میں لڑکھڑی پڑ جاتی ہے پھر وہ اس گدھے کی طرح بھاگتے ہیںحُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌ،فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ؎ جو شیر سے بھاگتا ہے ۔ اس وقت پچھتاتے ہیں کہ آہ! ہم کس پر مرے تھے۔ لاش پر مرنے کا لاس (Loss) تب ان کو معلوم ہوگا ۔ اس پر میرایہ شعر ہے ؎ شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست جن کو پہلے غزل سنائے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان فانی لاشوں پر مرنے کے لیے یہ دل نہیں بنایا ، یہ دل مندر نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا گھر ہے۔لَا اِلٰہ سے ان فانی بتوں کو نکالو پھر جس کا گھر ہے وہ اس میں آجائے گا ؎ نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوب خدا کا گھر پئے عشقِ بتاں نہیں ہوتاقربِ حق کی لذتِ غیر محدود ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی غیر محدود عظمتوں کو اور غیر محدود لذتوں کو ہماری محدودلغت کیسے بیان کرسکتی ہے ؟لغت کچھ دیر تو ساتھ دیتی ہے، اس کے بعد الفاظ ہاتھ جوڑ لیتے ہیں کہ اس کے آگے بیان سے ہم قاصر ہیں۔ جس طرح سدرۃالمنتہیٰ پر جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا تھا کہ اس کے بعد اگر ایک بال برابر بھی ------------------------------