سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
جو شخص کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے اسے حلاوتِ ایمانی عطا کی جاتی ہے ۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَقَدْ وَرَدَ أَنَّ حَلَا وَۃَ الْاِیْمَانِ اِذَا دَخَلَتْ قَلْبًا لَا تَخْرُجُ مِنْہُ اَبَدًا فَفِیْہِ اِشَارَۃٌ اِلٰی بَشَارَۃِ حُسْنِ الْخَاتِمَۃِ ؎ یعنی جب حلاوت کسی دل میں داخل ہو جاتی ہے پھر اس سے کبھی خارج نہیں ہوتی۔ اس میں حسنِ خاتمہ کی بشارت ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا سے بچنے کے لیے ایک دعا تلقین فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ ریا میری اُمت میں بہت خفیف ہے، جس طرح کالی چیونٹی کالی رات میں کالے پتھر پر چلے۔ یہ سن کر حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ہم کیسے بچیں گے؟ آپ نے فرمایا: یہ دعا پڑھ لیا کرو: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ وَاَنَا اَعْلَمُ ، وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَالَا اَعْلَمُ؎ (تین دفعہ ) لیکن یہ دعا بھی تب قبول ہو گی جب اللہ والوں کی صحبت اختیار کی جائے۔ اس لیے کہ یہ دعا جن کو تلقین کی گئی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ تھے۔چناں چہ قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ والوں کی صحبت میں رہنا سو برس کی اخلاص کی عبادت سے افضل ہے۔ پھر ہنس کر فرمایا کہ مگر ایک منٹ کی اخلاص کی عبادت نصیب نہیں ہو گی جب تک اللہ والوں کی صحبت میں نہیں جاؤ گے ۔ریا کی حقیقت ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ریا کی حقیقت یہ ہے کہ اَلْمُرَاءَ ا ۃُ فِی الْعِبَادَاتِ لِغَرْضٍ دُنْیَوِیٍّ عبادت میں دکھلاوا ------------------------------