سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ ایسے شخص کو مولانا نہ کہو،ایسے شخص کو مولانا کہنا جائز نہیں،کیوں کہ قرآنِ مجید نے ناقدینِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو لَایَعْلَمُوْنَ اور اِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَاۤءُیعنی جاہل اور بے وقوف فرمایا اور اس میںہُمْ ضمیر دوبارہ لا کرجملہ اسمیہ بنا دیا تاکہ وہ ان کی مستقل بے وقوفی پر دلالت کرے ۔مروّجہ سیاست اور حضرت حکیم الامت کی تنقید ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی بھوک ہڑتال نہیں کی ،جلوس نہیں نکالے، نعرہ بازی نہیں کی۔صرف دو راستے ہیں: ایک صبراور دوسرا جہاد،مقبولانِ بارگاہ کا راستہ مت چھوڑو اور شاہراہِ اولیا اللہ سے مت ہٹو۔ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہیے جس سے انبیاء علیہم السلام کی عزت کوبیچنا پڑے۔رضائے الٰہی مقصود ہے کشور کشائی مقصود نہیں ۔ قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے خط لکھا کہ دیوبند قصبہ میں ایک با اثر شخص بڑا فتنہ گر ہے اور وہ ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ اسے دارالعلوم کی شوریٰ کا ممبر بنایا جائے۔ تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہنے جواب میں تحریر فرمایا کہ ہرگز ایسے شخص کو ممبر نہ بننے دوں گا،دارالعلوم دیوبند بند کردوں گا۔ رضائے الٰہی مقصود ہے مدرسہ مقصود نہیں ۔اہلِ مدارس کو نصیحت ارشاد فرمایا کہ اہلِ مدارس کو عزتِ نفس اور عظمتِ دین کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ اس چیز کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے علما ء عوام الناس کی نظر میں بے وقعت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پیٹ پر پتھر باندھنے میں ہے تو پتھر باندھ لو۔ مدرسہ چھوٹا رکھو، لیکن حرام آمدنی حاصل نہ کرو۔ جب سے اہلِ علم اور اہل اللہ میں فاصلے ہونے لگے اہلِ علم ذلیل ہوگئے۔تقویٰ فرضِ عین ہے جبکہ مدرسہ چلانا فرضِ کفایہ ہے،لہٰذا اہلِ علم کو ضروری ہے کہ اہلِ تقویٰ کی صحبت اختیار کریں۔