سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اسی کے مطابق دے گا ،لہٰذا انسان دروازے تک پہنچے اسے سلام کرے، اسے بوسہ دے، جب مزہ دل میں پائے تو بس جھوم جائے اور اس آستاں کی زمین چوم جائے۔ اللہ تعالیٰ کے جذب کے بغیر راستہ طےنہیں ہوسکتا۔ دل خدا کا گھر ہے،یہ گھوڑے باندھنے کا اصطبل نہیں ہے۔ جو دل غیروں کو دیتا ہے بڑا ظالم ہے ۔ یہ باب تفعّل سے ہے،جس میں تکلّف کی خاصیت ہے کہ تکلیف اٹھاکر طہارت حاصل کرے۔مجالس بروز جمعۃ المبارک،24؍نومبر2000ء حضرت والا سردی کے اثر سے علیل ہوگئے تھے،اس وجہ سے چند دن مجلس نہ ہوسکی پھر جمعۃ المبارک کو عشاء کے بعد مجلس میں تشریف لائے۔ حضرت والا کے سامنے یہ شعر پڑھا گیا ؎ ان حسینوں سے دل بچانے میں میںنے غم بھی بہت اٹھائے ہیں ارشاد فرمایا کہ اس غم کو اہلِ ظاہر ظاہر نہیں کرتے تاکہ لوگ اعتقاد نہ چھوڑ دیں، جبکہ تقاضائے معصیت مضر نہیں اور اہلِ دل اس تقاضے پر عمل نہ کرنے کا غم اٹھاتے ہیں اور اس غم کی برکت سے جلد منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم نے یہ راز اس لیے ظاہر کیا تاکہ اللہ کے بندوں کو نفع پہنچے اور ان کا حوصلہ شکستہ نہ ہو۔فضلِ الٰہی کا آسرا کام بنتا ہے فضل سے اختؔر فضل کا آسرا لگائے ہیں اس پر ارشاد فرمایا کہ انسان فضل کا آسرا کام کرکے لگائے۔ کام ہی نہ کرے تو دلیل آسرا ہی نہیں ہے، لہٰذا پہلے نمبر پر اہل اللہ کے دروازے پر جائے، دوسرے نمبر پر ذکر کرے ،تیسرے نمبر پر گناہوں سے پرہیز کرے پھر آسرا لگائے ۔ پھر تحدیثِ نعمت کے