سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
غیبت غیبت ایک روحانی بیماری ہے اور ہر روحانی بیماری بلا ہے۔ غیبت کرنا فطرتِ انسانی کے خلاف ہے، غیبت کرنے والا ظالم ہے، جو مسلمان بھائی کے عیب اور بُرائی کو بیان کررہا ہے۔ بیمار پر رحم کرنا چاہیے یا ظلم کرنا چاہیے؟غیبت کا حرام ہونا رحمتِ الٰہی کی دلیل ہے۔اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ میرے بندوں کی جگہ جگہ بُرائی بیان کی جائے،یہ ہماری آبرو کی لاج ہے۔حضرت عبداللہ بنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے: اے کعبہ! تیری عزت سرآنکھوں پر، لیکن مومن کی عزت کے سامنے تو کچھ نہیں۔ اور ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ کسی کے عیب چھپانے والا ایسا ہے جیسا زندہ درگور کو نکالنے والا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق لکھی ہے کہ غیبت کا گناہ اس وقت ہے جب دوسرے شخص کو خبر ہوجائے، کیوں کہ اطلاع کے بعد تکلیف ہوتی ہے، لہٰذا اگر خبر نہیں ہوئی تو اس سے معافی مانگنا جائز نہیں، خوامخواہ اس کو تکلیف پہنچے گی۔ البتہ جس مجلس میں غیبت ہوئی ہے اس میں غلطی کا اقرار کرلے۔ کسی میں موجود عیب کو ذکر کرنے کا نام غیبت ہے، ورنہ بہتان ہے۔علمِ غیب ارشاد فرمایا کہ جزوی فضیلت سے کلی فضیلت لازم نہیں آتی، جیسے ہُد ہُد نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا تھا : فَقَالَ اَحَطۡتُّ بِمَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ ؎ ہُد ہُد نے کہا: اے اللہ تعالیٰ کے نبی! مجھے وہ بات معلوم ہوئی ہے جو آپ کو معلوم نہیں۔ اسسے ہُد ہُد کی حضرت سلیمان علیہ السلام پر فضیلت لازم نہیں آتی۔ پھر حضرت والا نے ہنس کر فرمایا کیا کہ وہ بھی وہابی تھا کہ ایک پیغمبر علیہ السلام سے علمِ غیب کی نفی کی اور ------------------------------