سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
ایں چنیں شیخے گدائے کو بکو عشق آمد لَا اُبَالِیْ فَاتَّقُوْا اتنا بڑا شیخ آج گدا بن کر در بدر پھر رہا ہے،عشق جب آتا ہے تو اسی شان سے آتا ہے۔مجاہدات ِ شاقہ اور ان کا ثمر اپنے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ زمانہ قیام میں حضرت والا پر مجاہداتِ اختیاری کے علاوہ مجاہداتِ اضطراری بھی آئے، جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن حضرت کے چار شعر نقل کرتا ہوں جن میں اضطراری یعنی ایذائے خلق کی طرف اشارہ ہے ؎ بتاؤں کیا کیا سبق دیے ہیں تری محبت کے غم نےمجھ کو ترا ہی ممنون ہے غمِ دل اور آہ و نالہ دل حزیں کا جفائیں سہہ کر دعائیں دینا یہی تھا مجبور دل کا شیوہ زمانہ گزرا اسی طرح سے تمہارے در پر دل حزیں کا جو تیری جانب سے خود ہی آئے پیامِ الفت دل حزیں کا تو کیوں نہ زخم جگر سے بہہ کر لہو کرے رخ تیری زمیں کا نہیں تھی مجھ کو خبر یہ اختر کہ رنگ لائے گا خوں ہمارا جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا آپ نے بڑے صبر و استقلال کے ساتھ مخلوق کی ایذاءرساینوں کو برداشت کیا اور نہ کبھی کسی سے انتقام لیا اور نہ بد دعا دی، ان ہی مجاہدات کی برکت اور اپنے شیخ کی محبت و خدمت اور اتباع و انقیاد کا ثمرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص آپ پر متوجہ ہے اور آج پورے عالم میں آپ کا فیض پھیل رہا ہے آ پ جس کمالِ علم و عمل ، تقویٰ و للہیت معرفت و خشیت، نسبت و و لایت ، درد وغم،سوز و گداز ، شیریں و مٹھاس ، آہ و فغاں ، شفقت ورأفت، چشم گریاں وسینہ بریاں ، پر تاثیر وعظ و نصیحت اور اصلاح و تزکیہ کی مہارتِ تامّہ سے نوازے گئے ہیں۔ وہ بہت کم بند گان خدا کو میسر ہے اور حضرت اقدس دامت برکاتہم کی مایہ ناز