سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
مصافحہ رنگون کے لوگ بڑے دھیمے اور میٹھے اور منظّم مزاج کے لوگ تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد حسبِ وعدہ مصافحہ شروع ہوا۔مفتی نورمحمد صاحب نے برمی زبان میں اعلان کیا کہ ایک ایک صف کر کے مصافحہ کریں۔ جو صف مصافحہ کرے وہ کھڑی ہوجائےاور دوسرے لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہیں۔اور حضرت شیخ کو ایک کرسی پر بٹھلادیا گیا۔ ایک صف کھڑی ہوتی تھی،وہ قطار میں آکر مصافحہ کرتی تھی اور باہر چلی جاتی تھی پھر دوسری صف کھڑی ہوتی تھی،نہایت انتظام اور بغیر دھکے کے لوگوں نے بڑے سکون کے ساتھ حضرت سے مصافحہ کیا۔ اور یہ مصافحہ کا عمل تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہا، اس کے بعد حضرت قیام گاہ پر تشریف لے گئے ۔سورتی مسجد میں وعظ کی کیفیات سورتی مسجد کے آٹھ روز وعظ میں لوگ بڑے جوش اور جذبہ کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ بڑے سکون اورتوجہ کے ساتھ بات سنتے تھے۔ حضرت کی دل سوز باتوں پر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے اور پُر مزاح باتوں سے لوگ خوب محظوظ ہوتے تھے۔ حضرت سے سنی ہوئی بات کہ’’عشق بے زبان ہوتا ہے ‘‘ اس بات کا مشاہدہ سورتی مسجد کے بیانات میں ہوا۔ وعظ سننے والوں کی تہائی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی تھی جو اچھی طرح اردو زبان نہیں سمجھتے تھے،لیکن قلبی کیف و سرو ر اور روحانی انوارات کو وہ بھی محسوس کرتے تھے اور بتلاتے تھے کہ اگرچہ حضرت کی پوری باتیں ہمیں سمجھ میں نہیں آتیں،لیکن دل میں ایک نور محسوس کرتے ہیں۔ جب لوگ وعظ سے فارغ ہو کر جاتے تھے،تو حضرت انہیں دیکھ کر فرماتے تھے کہ ان کی چال بتلاتی ہے کہ یہ روحانی کیف و مستی لے کر جا رہے ہیں ۔ حضرت کی وعظ کی مجلسوں میں علماء کی اچھی خاصی تعداد ہوتی تھی اور بہت نفع محسوس کرتے تھے اور حضرت کے قرآن وحدیث پر وہبی استدلال اور نکات پر بہت داد و تحسین دیتے اورحیرانگی کا اظہار کرتے