سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
کے اشعار پیش کیے ،جو حضرت شیخ کے ساتھ میر صاحب کے عشق اور مقامِ ناز پر دلالت کرتے ہیں ۔ جو اب ہدیہ ناظرین کیے جاتے ہیں ۔ ان اشعار کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت میر صاحب مدظلہٗ بیماری کی وجہ سے حضرت شیخ دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے ۔ اس زمانہ ہجراں میں یہ اشعار ہوئے جنہیں غمِ فراق کا عنوان دیا گیا پھر جب روبصحت ہوئے اور دربارِ شیخ میں باریابی ہوئی، تو بعد کے اشعار ہوئے جنہیں مسرتِ وصال کا عنوان عطا ہوا۔غمِ فراق میں کیا ہوں ایک آ ہ نارسا فریاد بسمل ہوں سراپا درد ہوں نالہ ہوں اور خاکستر دل ہوں میں کیا ہوں ایک پیمانہ جو ترسے قطرۂ مے کو شکستہ جام ہوں نا آشنائے دردِ محفل ہوں زبان حال میری کہہ رہی ہے میرا افسانہ گل افسردۂ ہستی ہوں متروک عنادل ہوں بکھر جائے نہ بالکل ہی مری ہستی کا شیرازہ مجھے ہنس ہنس کے مت دیکھو میں اک ٹوٹا ہوا دل ہوں خوشا یہ خنجر تسلیم یہ لذت شہادت کی میں اپنے سر کو ہاتھوں پر لیے خود رقصِ بسمل ہوںمسرتِ وصال مرے جام شکستہ کو خریدا میرے ساقی نے وگرنہ درحقیقت پھینک ہی دینے کے قابل ہوں