سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
حصے میں بنایا جاتا تھا ۔پھر ہنس کر فرمایا کہ میرے شیخ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو فقہ لغت میں یدِ طولیٰ حاصل تھا اور مجھے بھی اس میں ذوق ہے ۔علم الیقین، عین الیقین ،حق الیقین کا مثالوں سے فرق ارشاد فرمایا کہ میںعلم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین میں فرق مثالوں سے سمجھاتا ہوں۔ علم الیقین مثلا ًایک شخص نے کباب نہیں کھایا ہے اور نہ ہی دیکھا ہے اس کو کوئی سچا آدمی بتلائے کہ کباب بڑا مزیدار ہوتا ہے تو اس کو علم الیقین ہو گیا اور پھر کسی کو کباب کھاتے مزے لیتے دیکھ لے تو اس کو عین الیقین حاصل ہو گیا، اور مثلا ً ایک دن خود کھا لیاتو حق الیقین حاصل ہوگیا۔ یا جس طرح اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ کی تلاوت کر کے اس کو علم الیقین حاصل ہو گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی یاد والوں کو چین سے دیکھا تو عین الیقین حاصل ہو گیا اور جب خود چین پا جائے تو حق الیقین حاصل ہو گیا ۔گناہ کی اسکیم ارشاد فرمایا کہ جو شخص گناہ کی اسکیم بنا رہا ہے وہ دراصل اپنے قلب کے اطمینان اور چین کو برباد کرنے کی اسکیم بنا رہا ہے ۔محبتِ شیخ ارشاد فرمایا کہحضرت مفتی محمد حسن صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ اشرفیہ لاہور نے اپنے شیخ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ فرمائیں کہ جنت میں جاؤ گے یا شیخ کی مجلس میں تو میں آپ کی مجلس کو ترجیح دوں گا۔ تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شیخ کے ساتھ ایسی ہی عقیدت ہونی چاہیے کہ ہمارے پیر کی مجلس جنت سے افضل ہے۔ پھر اس کی شرح فرمائی کہ جنت کا تقابل اشرف علی رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں ہے بلکہ چوں کہ شیخ کو اللہ تعالیٰ کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ اور جنت کا تقابل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بلائے کہ ادھر آؤ اللہ تعالیٰ