سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اغراضِ دنیوی کی خاطر کرنا،لیکن غرضِ اُخروی کی خاطر اور ترغیب کے لیے کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ جیسا کہ یہ جملہ مشہور ہے: رِیَا ءُالشَّیْخِ اَفْضَلُ مِنْ اِخْلَاصِ الْمُرِیْدِ شیخ کا ریا افضل ہے مرید کے اخلاص سے۔چوں کہ یہ غرضِ اُخروی کے لیے ہے۔ جس طرح علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے سو رۂ توبہ کی آخری آیت حَسْبِیَ اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الخ کا وظیفہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ عرصۂ دراز سےیہ میرا وِرد ہے۔ تو یہ ترغیب کے لیے ہے ۔ اللہ والے اگر اپنے عمل کو ظاہر بھی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لیے کرتے ہیں، تاکہ دوسرے بھی اس پر عمل کرکے فائدہ اٹھا لیں ۔حُسن کا شکریہ رنگون کے میزبان نے حضرت شیخ سے عرض کیا کہ کل جمعہ میں مولانا جلیل احمد صاحب چودھویں کے چاند لگ رہے تھے۔ تو اس پر حضرت نے فرمایا کہ حُسن کا شکریہ یہ ہے کہ حُسن کو معصیت میں استعمال نہ کرے۔ حضرت کی اس بات سے بندے کو بہت تنبیہ ہوئی اور عبرت حاصل ہوئی ۔تکبر کا علا ج ارشاد فرمایا کہتکبر کی حقیقت ہے حق بات کا انکار کرنا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا۔اور اس کا علاج اہل اللہ کی صحبت ہےاور دعا بھی کرے کہ اللہ تعالیٰ اس خطرناک مرض سے محفوظ فرمائیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعائیں تلقین فرمائی ہیں ان سے بڑھ کر کوئی دعا نہیں ہو سکتی اور یہ دعا تکبر کا علاج ہے اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا وَّاجْعَلْنِیْ شَکُوْرًا (اے اللہ تعالیٰ! مجھ کو صابر بنا اور شاکر بنا ) اورصبر و شکر کے سا تھ تکبر جمع نہیں ہوتا، کیوں کہ تکبراللہ تعالیٰ سے دور کرتا ہے اور صبر و شکر اللہ تعالیٰ سے قریب کرتے ہیں، تو سببِ قرب اور سببِ بُعد اکٹھے نہیں ہو سکتے،کیوں کہ قرب اور بُعد میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔اور صبر کی تین