سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
بندوں کی بے عزتی تھی کہ جس سے زنا کیا ہے اس سے کہتا کہ معاف کرو،تو سب پرراز کھل جاتا۔ تو زنا کو حق اللہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی عزت بچا لی۔ اس کے برعکس غیبت حق العباد ہے۔جس کی غیبت کی گئی ہے اگر اس کو علم ہو گیا کہ فلاں فلاں نے میری غیبت کی ہے،تو غیبت کرنے والوں کو اس سے معافی مانگنا پڑے گی ورنہ معافی نہیں ہو گی ۔ اور غیبت کے حرام ہونے کا ایک راز اللہ تعالیٰ نے میرے قلب میں ڈالا ہے کہ اگر کسی باپ کا بیٹا نالائق ہو تو باپ اس کی پٹائی بھی کرتا ہے، لعنت ملامت کرتا ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا اس کی بُرائی کرتا ہے تو ابّا کو صدمہ ہوتا ہے،یہ ابّا کی محبت کی دلیل ہے۔ تو غیبت کا حرام ہونا ربّا کی محبت کی دلیل ہے، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ دوسرے میرے بندوں کی نالائقی کا تذکرہ کر کے انہیں ذلیل کریں۔یہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی کرم کا تعلق ہے اپنے بندوں کے ساتھ ۔غضِّ بصر ارشاد فرمایا کہہرنظر بچانے پر حلاوت ایمانیِ عطا ہوتی ہے۔ عام مسلمانوں کی عید تو سال میں د و دفعہ ہوتی ہے اور خدا کے عاشقوں کی عید ہر وقت ہے، سڑکوں پر نظر بچاتے ہیں اور حلوۂ ایمانی کھاتے ہیں۔ میں نے مفتی تقی عثمانی صاحب سے کہا کہ ٹرک پر لکھا ہوتا ہے فاصلہ رکھیے ۔ اسی طرح حسینوں سے بھی فاصلہ رکھیے اور اپنا یہ شعر سنایا ؎ مرے ایامِ غم بھی عید رہے ان سے کچھ فاصلے مفید رہے مولانا تقی عثمانی صاحب نے کہا کہ آپ کا یہ شعر بہت حسین ہے۔ نظر بچانے سے نفس کو غم آیا اور قلب و روح کو نور اور سرور ملا یہی وہ حلاوتِ ایمانی ہے جس کا حدیثِ قدسی میں وعدہ ہے۔ نظر بچانے سے جو غم ہوتا ہے اس شعر میں میں نے اس کو تسلیم کیا ہے لیکن اسی غم کی بدولت قلب کو حلوۂ ایمانی عطا ہوجاتا ہے،جس کی لذت کے سامنے آدمی اور زیادہ غم اٹھانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے،کیوں کہ حلوۂ ایمانی اسی غم سے مل رہا ہے ۔ جس کے گھر میں دولت ہوتی ہے وہ دروازے میں تالا مضبوط لگاتا ہے۔ آنکھوں کی حفاظت