سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
شیخ سے نفع کی شرط ارشاد فرمایا کہشیخ سے نفع کے لیے جہاں شیخ سے عشق و محبت شرط ہے،وہاں ایک شرط یہ بھی ہے کہ غیر شیخ کو مت چاہو۔ اگرغیر شیخ عالم ہے یا مفتی ہے تواس سے مسائل تو ضرور پوچھو،لیکن اس کی مجلس میں مت جاؤ ،یہ محبت اور غیرت کے خلاف ہے۔ شیخ زندہ ہو تو دوسروں کے پاس مت بیٹھو۔ ایک کٹ آؤٹ ہونا چاہیےتاکہ پاور ہاؤس سے پوری بجلی ملے۔ دوسروں کے پاس جانے کو دل چاہناشیخ سے محبتکی کمی کی علامت ہے۔حضرت والا دامت برکاتہم کا اپنے شیخ سے تعلق ارشاد فرمایا کہ پھولپور(الٰہ آباد) میں میری تعلیم کے زمانے میں بڑے بڑے جلسے ہوتے تھے،لیکن میں کسی جلسے میں نہیں جاتا تھا بلکہ اپنے شیخ کے پاس رہتا تھا اور مجھے ایسے لگتا تھا جیسے میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ بات نہ تو کسی نے سمجھائی تھی اور نہ ہی شیخ نے بتلائی تھی، لیکن ؎ محبت خود سکھا دیتی ہے آدابِ محبت جب میں مڈل پڑھ رہا تھا تو گاؤں والے ایک شعر پڑھتے تھے ؎ اللہ اللہ کیا مزا مرشد کے مے خانے میں ہے دونوں عالم کا مزا بس ایک پیمانے میں ہے کئی کئی ماہ ہو جاتے شیخ کے علاوہ کسی کی صورت دکھائی نہ دیتی۔ حضرت والارحمۃ اللہ علیہ نماز پڑھاتے اور میں تکبیر کہتا تھا اور تیسراا ٓدمی نہ ہوتا تھا اور ذرا طبیعت نہ گھبراتی تھی۔ شیخ کی اللہ اللہ سنتا تو حاصلِ دو جہاں پا جاتا تھا ۔ جب منزل ایک ہے تو رہبر بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔شیخ سے تعلق میں نیت ارشاد فرمایا کہ شیخ اور پیر و مرشد سے اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنے کا