سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
دوزخ سے پناہ نہیں مانگتا تو عبث ہے، اسیلیے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی دعا اُمت کو تلقین فرمائی،جس میں جنت اور اعمالِ جنت دونوں کو مانگا گیاہے اور دوزخ اور اعمالِدوزخ دونوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔وہ دعایہ ہےاَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا؎ ترجمہ:۔اے اللہ تعالیٰ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں جنت کا اور ان اعمال کا جو جنت سے قریب کر دیں، اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں دوزخ سے اور ان اعمال سے جو دوزخ سے قریب کر دیں ۔اس دعا میں پورا دین مانگا گیا ہے،اس لیے کہ پہلے حصے میں سب معروفات آگئے اور دوسرے میں سب منکرات آگئے۔’’معروف ‘‘اور ’’منکر ‘‘ کا معنیٰ ارشاد فرمایا کہ’’معروف‘‘جانی پہچانی چیز کو کہتے ہیں۔ تو دین میں معروف فطرتِ انسانی کے لیے مانوس چیز ہوتی ہے، اور ’’منکر‘‘ اجنبی چیز کو کہتے ہیں۔منکرات سے فطرتِ انسانی غیر مانوس ہوتی ہے ، ہاں! اگر کسی کا مزاج اُلٹ جائے تو یہ اس کے مزاج کا فساد ہے۔نیک اعمال کی توفیق ارشادفرمایا کہ نیک اعمال کی توفیق بھی اہل توفیق کی صحبت سے ملتی ہے۔ جب اہل اللہ کے تذکرے سے رحمت نازل ہوتی ہے جبکہ وہ خود وہاں موجود نہ ہوں، تو اگر وہ خود وہاں موجود ہوں تو کس قدر رحمت نازل ہوگی! انسان کی قسمت اہل اللہ کے پاس بدل جاتی ہے ۔دھوپ میں سائے کا مزہ رمنا پارک میں مجلس ایک درخت کے سائے میں لگائی گئی تھی ۔ کچھ دیر بعد ------------------------------